حشر اُٹھا ، نہ آسماں ٹوٹا |
دل جلا تھا ، سو آبلہ پھوٹا |
خواب جلنے لگے تھے سینے میں |
منھ سے بولے تو کفر سا ٹوٹا |
تھے بہاروں کے رازدانوں میں |
کام آیا نہ کوئی گل بوٹا |
پنکھڑی پر تھا ایک قطرہ سا |
پھول کا خواب تھا کہدل ٹوٹا |
کون پہنچا دلوں کے بھیدوں کو |
ساتھ چھوٹا کہ ہاتھ بھی چھوٹا |
آنکھ کو اشک ، پھول کو شبنم |
ایک چھالا کہاں کہاں پھوٹا |
دُھوپ چمکی تو بڑھ گئے سائے |
بات پائی تو رازداں چھوٹا |
کس نے پر کھا مزاج شبنم کا |
تھا وہ موتی کہ آبلہ پھوٹا |
بات کہنے کے لاکھ پہلو ہیں |
ناؤ ٹوٹی کہ ناخدا ٹوٹا |
سوچنے کی مجال بھی نہ ہوئی |
کون سا ہم سفر کہاں چھوٹا |
موت کا سا سکوت طاری ہے |
ساتھ دل کا یہیں کہیں چھوٹا |
حشر اُٹھا ، نہ آسماں ٹوٹا |
دل جلا تھا ، سو آبلہ پھوٹا |
خواب جلنے لگے تھے سینے میں |
منھ سے بولے تو کفر سا ٹوٹا |
تھے بہاروں کے رازدانوں میں |
کام آیا نہ کوئی گل بوٹا |
پنکھڑی پر تھا ایک قطرہ سا |
پھول کا خواب تھا کہدل ٹوٹا |
کون پہنچا دلوں کے بھیدوں کو |
ساتھ چھوٹا کہ ہاتھ بھی چھوٹا |
آنکھ کو اشک ، پھول کو شبنم |
ایک چھالا کہاں کہاں پھوٹا |
دُھوپ چمکی تو بڑھ گئے سائے |
بات پائی تو رازداں چھوٹا |
کس نے پر کھا مزاج شبنم کا |
تھا وہ موتی کہ آبلہ پھوٹا |
بات کہنے کے لاکھ پہلو ہیں |
ناؤ ٹوٹی کہ ناخدا ٹوٹا |
سوچنے کی مجال بھی نہ ہوئی |
کون سا ہم سفر کہاں چھوٹا |
موت کا سا سکوت طاری ہے |
ساتھ دل کا یہیں کہیں چھوٹا |