تم بھی چلے تھے سوئے در ، ہم بھی چلے تھے سوئے در
تم بھی اُٹھے بہ چشم نم ، ہم بھی بڑھے بہ اشکِ تر
تم بھی وفا شناس تھے ، ہم بھی وفا شعار تھے
ہم بھی گئے تھے سربکف ، تم بھی جگر فگار تھے
تم بھی تھے آبروئے گل ، ہم بھی تھے غیرتِ سمن
تم بھی دریدہ جیب تھے ، ہم بھی تھے چاک پیرہن
یاد تو ہو گا تم کو بھی کتنی لگن کا ساتھ تھا
چاہتیں بھی تھیں ، قرب بھی ، ہاتھ میں اپنے ہاتھ تھا
جب بھی چلے ہیں ساتھ ہم گام بہ گام تھے بہم
معرکۂ دل و نظر اپنے ہی خوں سے ہے رقم
شوق وہی ، خلش وہی ، درد وہی ، تپش وہی
منزلِ آرزو وہی ، راہ وہی ، روش وہی
پھر بھی کھنچے کھنچے سے ہو ، پھر بھی رُکے رُکے سے ہو
ایک ہے قصۂ جنوں پھر بھی لیے دیے سے ہو
(۱۹۶۶ء)
تم بھی چلے تھے سوئے در ، ہم بھی چلے تھے سوئے در
تم بھی اُٹھے بہ چشم نم ، ہم بھی بڑھے بہ اشکِ تر
تم بھی وفا شناس تھے ، ہم بھی وفا شعار تھے
ہم بھی گئے تھے سربکف ، تم بھی جگر فگار تھے
تم بھی تھے آبروئے گل ، ہم بھی تھے غیرتِ سمن
تم بھی دریدہ جیب تھے ، ہم بھی تھے چاک پیرہن
یاد تو ہو گا تم کو بھی کتنی لگن کا ساتھ تھا
چاہتیں بھی تھیں ، قرب بھی ، ہاتھ میں اپنے ہاتھ تھا
جب بھی چلے ہیں ساتھ ہم گام بہ گام تھے بہم
معرکۂ دل و نظر اپنے ہی خوں سے ہے رقم
شوق وہی ، خلش وہی ، درد وہی ، تپش وہی
منزلِ آرزو وہی ، راہ وہی ، روش وہی
پھر بھی کھنچے کھنچے سے ہو ، پھر بھی رُکے رُکے سے ہو
ایک ہے قصۂ جنوں پھر بھی لیے دیے سے ہو
(۱۹۶۶ء)
ساتھی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more