سوچتی ہوں، مقدس وفاؤں کی قربان گہ پر چلوں
اعترافِ گنہ آج میں کر نہ لوں؟
برہمیِ دلِ دوستاں کی سزاروار ہوں
میں خطا کا رتھی، میں خطاکار ہوں
ساتھ میں ہر قدم پر تمھارا نہیں دے سکی
میں کبھی منزلوں تم سے آگے رہی
مجھ کو قالین پارے بچھانے کی تومقدرت ہی نہ تھی
راستے میں مگر جتنے کانٹے ملے
اُن کو اپنے دل و جاں میں پیوست کرتی گئی
ہاں مبادا گزندان سے پہنچے تمھیں
ساتھ بے شک تمھارا نہیں دے سکی
میں کبھی نقشِ پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی
تاکہمسلی ہوئی پنکھڑیاں چن سکوں
جوتمھارے ہی قدموں تلے آکے روندی گئیں
دل کے آئینہ خانے میں آراستہ اُن کو کرتی رہی
دیکھ لو نکہتِ رائگاں
آج محفوظ ومامون ہے
ہر گلِ تر کو تم سے معنون کیا
میں نے خوشبو ئے رفتہ کو اپنالیا
پیرہن تار تار ، انگلیاں خوں چکاں
اپنا مسلک مگر برتراز جسم و جاں
کند ہوتے نہیں دردِ احساس کے نیشتر
دل کو پھر بھی نہیں خواہشِ درگزر
جوخطا آج تک مجھ سے سرزد ہوئی
اس خطاسے مجھے آج تک پیار ہے
ان رہوں میں کو ئی میں اکیلی نہیں
اور آشفتہ سر ساتھ ہیں
وہ جوغیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے
اور اپنوں کے پھولوں سے زخمی ہوئے!
(۱۹۶۷ء)
سوچتی ہوں، مقدس وفاؤں کی قربان گہ پر چلوں
اعترافِ گنہ آج میں کر نہ لوں؟
برہمیِ دلِ دوستاں کی سزاروار ہوں
میں خطا کا رتھی، میں خطاکار ہوں
ساتھ میں ہر قدم پر تمھارا نہیں دے سکی
میں کبھی منزلوں تم سے آگے رہی
مجھ کو قالین پارے بچھانے کی تومقدرت ہی نہ تھی
راستے میں مگر جتنے کانٹے ملے
اُن کو اپنے دل و جاں میں پیوست کرتی گئی
ہاں مبادا گزندان سے پہنچے تمھیں
ساتھ بے شک تمھارا نہیں دے سکی
میں کبھی نقشِ پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی
تاکہمسلی ہوئی پنکھڑیاں چن سکوں
جوتمھارے ہی قدموں تلے آکے روندی گئیں
دل کے آئینہ خانے میں آراستہ اُن کو کرتی رہی
دیکھ لو نکہتِ رائگاں
آج محفوظ ومامون ہے
ہر گلِ تر کو تم سے معنون کیا
میں نے خوشبو ئے رفتہ کو اپنالیا
پیرہن تار تار ، انگلیاں خوں چکاں
اپنا مسلک مگر برتراز جسم و جاں
کند ہوتے نہیں دردِ احساس کے نیشتر
دل کو پھر بھی نہیں خواہشِ درگزر
جوخطا آج تک مجھ سے سرزد ہوئی
اس خطاسے مجھے آج تک پیار ہے
ان رہوں میں کو ئی میں اکیلی نہیں
اور آشفتہ سر ساتھ ہیں
وہ جوغیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے
اور اپنوں کے پھولوں سے زخمی ہوئے!
(۱۹۶۷ء)
اعتراف
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more