یہ دُھواں ہے کہ مرے دل کی لگی ہے ، کیا ہے؟ |
میری آنکھیں ہیں کہساون کی جھڑی ہے ، کیا ہے؟ |
وہ اندھیرا ہے کہ دم میر ا گُھٹا جاتا ہے |
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے |
میں کہ تقدیسِ وفا ، عفت و ناموسِ حیات! |
میرے انفاس سے روشن ہوا فانوسِ حیات |
حرفِ آغاز بھی میں ، نقطۂ انجام بھی میں |
کل کی اُمید بھی میں آج کا پیغام بھی میں |
میں کسی خوابِ دل آویز کی تشکیل نہ تھی |
جذبۂ لذتِ تخلیق کی تکمیل نہ تھی |
میں تو خود خالق و کوزہ گر و صنّاع بنی |
شہر بانو بھی میرا نام رہا ، مریم بھی |
دشتِ ظلمات میں آوارہ و سرگشتہ رہی |
بیستوں کے لیے میں تیشۂ فرہاد بھی تھی |
رہنمائی کو مرے دل کی لگن کافی تھی! |
آبلہ پائی کو سینے کی چبھن کافی تھی |
قلبِ سودا طلب و عزمِ جوا ں ساتھ میں تھا |
ہاتھ تقدیر کا ہر آن مرے ہاتھ میں تھا |
کوئی کونپل نئی پھوٹی تو یہ جانا میں نے |
دے دیا دہر کو جینے کا سندیسا میں نے |
غنچہ چٹکا حو مری روح میں نغمے جاگے |
شاید اب مجھ کو مرے خواب کی تعبیر ملے |
پھول کھلتاتو بہارو ں کا سلام آتا تھا |
مہر و مہ کا مجھے کرنوں سے پیام آتا تھا |
میرا مذہب کہمحبت بھی ہے اُمید بھی ہے |
پھر یہ کیسی مرے انداز میں محرومی ہے |
گرد صدیوں کے سفر کی مرے بالوں میں اَٹی |
پاؤں چھلنی ہیں ، نگہ زخمی ہے ، دل ہے خالی |
جانے کس موڑ پہ کیا چُوک ہوئی ہے مجھ سے |
آرزو لا کے کہاں روٹھ گئی ہے مجھ سے |
میں نے جونقش اُبھارا تھا وہ ایسا تو نہ تھا |
میں نے شہکار جوڈھالا تھا وہ ایسا تو نہ تھا |
آج اُس سانس سے بارود کی بو آتی ہے |
میںنے جس سانس کو سمجھا تھا دمِ عیسیٰ ہے |
کہیں پتھرائی ہوئی آنکھ مجھے تکتی ہے |
خون آلود کہیں ہاتھ نظر آتا ہے |
کہیں کچلے ہوئے سر ہیں ، کہیں بے روح بدن |
ہے اِدھر بھوک ، اُدھر ہے فقط آسائشِ تن |
میرا ارماں ، مرا محبوب کہاں آ پہنچا |
میرا طالب ، مرا مطلوب کہاں آ پہنچا |
میں وہ گوتم تھی کہ جوراہ دکھانے نکلا |
اور رستے میں خود اپنا ہی پتا بھول گیا |
ایک دو کرنیں تو پھوٹی ہیں اُجالے کی مگر |
اُن کو خورشید ِ درخشاں تو نہیں کہہ سکتے |
چند کلیو ں کو بہاراں تو نہیں کہہ سکتے |
آج یہ سوچ کے حیران ہوں ، آزردہ ہوں |
اپنی تخلیق پہ نازاں ہوں کہشرمندہ ہوں؟ |
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے |
اور سرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں |
کٹ ہی جائے گا شبِ تار کا اک روز فسوں |
دیکھو نادان ہے ، نادان سے مایوس نہ ہو |
آخرانسان ہے ، انسان سے مایوس نہ ہو |
(۱۹۶۶ء) |
یہ دُھواں ہے کہ مرے دل کی لگی ہے ، کیا ہے؟ |
میری آنکھیں ہیں کہساون کی جھڑی ہے ، کیا ہے؟ |
وہ اندھیرا ہے کہ دم میر ا گُھٹا جاتا ہے |
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے |
میں کہ تقدیسِ وفا ، عفت و ناموسِ حیات! |
میرے انفاس سے روشن ہوا فانوسِ حیات |
حرفِ آغاز بھی میں ، نقطۂ انجام بھی میں |
کل کی اُمید بھی میں آج کا پیغام بھی میں |
میں کسی خوابِ دل آویز کی تشکیل نہ تھی |
جذبۂ لذتِ تخلیق کی تکمیل نہ تھی |
میں تو خود خالق و کوزہ گر و صنّاع بنی |
شہر بانو بھی میرا نام رہا ، مریم بھی |
دشتِ ظلمات میں آوارہ و سرگشتہ رہی |
بیستوں کے لیے میں تیشۂ فرہاد بھی تھی |
رہنمائی کو مرے دل کی لگن کافی تھی! |
آبلہ پائی کو سینے کی چبھن کافی تھی |
قلبِ سودا طلب و عزمِ جوا ں ساتھ میں تھا |
ہاتھ تقدیر کا ہر آن مرے ہاتھ میں تھا |
کوئی کونپل نئی پھوٹی تو یہ جانا میں نے |
دے دیا دہر کو جینے کا سندیسا میں نے |
غنچہ چٹکا حو مری روح میں نغمے جاگے |
شاید اب مجھ کو مرے خواب کی تعبیر ملے |
پھول کھلتاتو بہارو ں کا سلام آتا تھا |
مہر و مہ کا مجھے کرنوں سے پیام آتا تھا |
میرا مذہب کہمحبت بھی ہے اُمید بھی ہے |
پھر یہ کیسی مرے انداز میں محرومی ہے |
گرد صدیوں کے سفر کی مرے بالوں میں اَٹی |
پاؤں چھلنی ہیں ، نگہ زخمی ہے ، دل ہے خالی |
جانے کس موڑ پہ کیا چُوک ہوئی ہے مجھ سے |
آرزو لا کے کہاں روٹھ گئی ہے مجھ سے |
میں نے جونقش اُبھارا تھا وہ ایسا تو نہ تھا |
میں نے شہکار جوڈھالا تھا وہ ایسا تو نہ تھا |
آج اُس سانس سے بارود کی بو آتی ہے |
میںنے جس سانس کو سمجھا تھا دمِ عیسیٰ ہے |
کہیں پتھرائی ہوئی آنکھ مجھے تکتی ہے |
خون آلود کہیں ہاتھ نظر آتا ہے |
کہیں کچلے ہوئے سر ہیں ، کہیں بے روح بدن |
ہے اِدھر بھوک ، اُدھر ہے فقط آسائشِ تن |
میرا ارماں ، مرا محبوب کہاں آ پہنچا |
میرا طالب ، مرا مطلوب کہاں آ پہنچا |
میں وہ گوتم تھی کہ جوراہ دکھانے نکلا |
اور رستے میں خود اپنا ہی پتا بھول گیا |
ایک دو کرنیں تو پھوٹی ہیں اُجالے کی مگر |
اُن کو خورشید ِ درخشاں تو نہیں کہہ سکتے |
چند کلیو ں کو بہاراں تو نہیں کہہ سکتے |
آج یہ سوچ کے حیران ہوں ، آزردہ ہوں |
اپنی تخلیق پہ نازاں ہوں کہشرمندہ ہوں؟ |
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے |
اور سرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں |
کٹ ہی جائے گا شبِ تار کا اک روز فسوں |
دیکھو نادان ہے ، نادان سے مایوس نہ ہو |
آخرانسان ہے ، انسان سے مایوس نہ ہو |
(۱۹۶۶ء) |