شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں

شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے رَوا ہمیں
سب کچھ ملا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
رہزن کہاں کہ شومیِ تقدیر جانتے
رستے میں مل گیا تھا کوئی خضر سا ہمیں
زنجیرِ پا بنے گی یہ خوشبوئے گل کبھی
وارفتگی میں دھیان کب اتنا رہا ہمیں
پانی میں ڈوب کر بھی چٹانیں وہیں رہیں
اور ہم کہجذبِ دل پہ بھروسا رہا ہمیں
دل داغ داغ ہے تو بہاروں کا کیا قصور
دھوکا فصیلِ رنگ پہ خود ہو گیا ہمیں
آئینے تھے مگر کئی ٹوٹے ہوئے بھی تھے
خود اعتمادیوں نے صلہ کیا دیا ہمیں
کوئی تو ہوگی بات جو ہم اُن کے ہو رہے
سب کچھ بھلا کے یاد بس اتنا رہا ہمیں
ہم سے تو کچھ کہا تھا کسی کم نگاہ نے
اوروں کی بات چھوڑیے، اوروں سے کیا ہمیں
کٹتی رہی ہیں عمرِ گریزاں کی منزلیں
لے لو قسم جوکوئی شناسا ملا ہمیں
ہونٹوں کو مسکرانے کی عادت سی پڑگئی
دل بھی کہے میں ہوتا تو کیا تھا برا ہمیں
سامانِ فصلِ گل سے گریزاں رہے اداؔ
اعلانِ فصلِ گل پہ بھروسا رہا ہمیں
(۱۹۶۷ء)
شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے رَوا ہمیں
سب کچھ ملا ہے ایک خوشی کے سوا ہمیں
رہزن کہاں کہ شومیِ تقدیر جانتے
رستے میں مل گیا تھا کوئی خضر سا ہمیں
زنجیرِ پا بنے گی یہ خوشبوئے گل کبھی
وارفتگی میں دھیان کب اتنا رہا ہمیں
پانی میں ڈوب کر بھی چٹانیں وہیں رہیں
اور ہم کہجذبِ دل پہ بھروسا رہا ہمیں
دل داغ داغ ہے تو بہاروں کا کیا قصور
دھوکا فصیلِ رنگ پہ خود ہو گیا ہمیں
آئینے تھے مگر کئی ٹوٹے ہوئے بھی تھے
خود اعتمادیوں نے صلہ کیا دیا ہمیں
کوئی تو ہوگی بات جو ہم اُن کے ہو رہے
سب کچھ بھلا کے یاد بس اتنا رہا ہمیں
ہم سے تو کچھ کہا تھا کسی کم نگاہ نے
اوروں کی بات چھوڑیے، اوروں سے کیا ہمیں
کٹتی رہی ہیں عمرِ گریزاں کی منزلیں
لے لو قسم جوکوئی شناسا ملا ہمیں
ہونٹوں کو مسکرانے کی عادت سی پڑگئی
دل بھی کہے میں ہوتا تو کیا تھا برا ہمیں
سامانِ فصلِ گل سے گریزاں رہے اداؔ
اعلانِ فصلِ گل پہ بھروسا رہا ہمیں
(۱۹۶۷ء)
شکوہ بھی کیجیے تو کہاں ہے روا ہمیں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more