وہ جوانسان ہیں | ||
اک کلی کے لیے ، اک کرن کے لیے | ||
زہر پیتے رہے ، جی گنواتے رہے | ||
غم رسیدہ نہ ہو ، دل گرفتہ نہ ہو | ||
آج کی موت بس آج کی موت ہے | ||
زندگی موت سے کب خجل ہوسکی | ||
تیرگی قسمتِ آب و گل ہو سکی | ||
روشنی نسلِ آدم کی میراث ہے | ||
اور انساں رہا موت پر خندہ زن | ||
از کراں تا کراں ، از زماں تا زمن | ||
جس طرح رات پر صبحِ نو | ||
غم رسیدہ نہ ہو ، آبدیدہ نہ ہو | ||
قافلہ تو ہمیشہ رہا تیز رَو | ||
ایک مشعل بجھی ، دوسری جل گئی | ||
ایک مر جھا گئی ، اک کلی کھل اُٹھی | ||
وہ جوانساں ہیں | ||
اک کلی کے لیے ، اک کرن کے لیے | ||
جاں لٹاتے رہے ، سر کٹاتے رہے | ||
ہم کسی قلّۂ کو ہ پر سچ کہو | ||
روشنی کے لیے آگ لینے گئے؟ | ||
ہم نے جب بھی چراغ اپنا روشن کیا | ||
اس میں اپنا ہی خونِ جگر ، خونِ ارماں جلا | ||
ہم اُجالوں کے رسیا کہیں بھی تھمے؟ | ||
ہاتھ میں ٹمٹماتا ہوا اِک دیا | ||
ہاتھ سے ہاتھ تک ہی پہنچتا رہا | ||
آندھیاں ، ظلمتیں ، زلزلے | ||
موج در موج تھیں ، پیچ در پیچ تھے | ||
ہم اُجالے کی بس اک کرن کے لیے | ||
طوق و زنداں کی ایک اک کڑی جھیلتے | ||
ایک دو دن نہیں ، سیکڑوں سال سے | ||
زہر پیتے رہے ، جا ں گنواتے رہے | ||
(لوگ آتے رہے لوگ جاتے رہے) | ||
زیست سے مرگ تک ، موت سے مہد تک | ||
دشت سے دشت تک ، عہد سے عہد تک | ||
ہاتھ کٹتے رہے اور ننھا سا اک روشنی کا پیامی دیا | ||
ہاتھ سے ہاتھ تک منتقل ہوتا جا تا رہا | ||
جگمگاتا رہا | ||
وہ دیا جس کو سورج بنانے چلے | ||
اور خود ظلمتوں میں بھٹکتے رہے | ||
وقت آواز ہے ، وقت للکار ہے | ||
اور ہر دَور میں سر پھرے | ||
اُس کے احکام پر چل پڑے | ||
ان کو صدیوں کی چالوں سے کیا واسطہ | ||
وہ جولمحوں کی اُنگلی پکڑ کر چلے | ||
وقت نے ٹھیر کر ان کو تعظیم دی | ||
اور وہ دل جلے ، سر پھرے | ||
آگے بڑھتے گئے | ||
با رہا راہ میں | ||
جوتھکے بھی نہ تھے ہم سفر سو گئے | ||
اور اُجاگر مگر راستے ہو گئے | ||
جوقدم بڑھ گئے کب وہ پیچھے ہٹے | ||
اور بڑھتے گئے ، اور بڑھتے گئے | ||
ان رہوں میں نہیں ویت نام اور کشمیر ہی | ||
ایسے قریے بھی تھے جن کو تاریخ بھی | ||
نام اب تک نہیں دے سکی | ||
اور انسانیت کا وہ ننھا دیا | ||
زندگی کے خم و پیچ سے آشنا | ||
زندگی کے خم و پیچ سے بے خبر | ||
کر گیا تاب دار اپنے مقدور بھر | ||
ایک اک بام و در ، ایک اک رہ گزر | ||
اک نہ اک شکل سے اک نہ اک روپ میں | ||
تیرگی میں کبھی اور کبھی دھوپ میں | ||
زندگانی کے ماتھے کا ٹیکا سدا جگمگاتا رہا | ||
سچ کہو دوستو ، سچ کہو ساتھیو! | ||
تم نے انساں کو مرتے بھی دیکھا کبھی | ||
اس کے دامن کو دستِ اجل چھوسکا؟ | ||
(۱۹۶۷ء) |
وہ جوانسان ہیں | ||
اک کلی کے لیے ، اک کرن کے لیے | ||
زہر پیتے رہے ، جی گنواتے رہے | ||
غم رسیدہ نہ ہو ، دل گرفتہ نہ ہو | ||
آج کی موت بس آج کی موت ہے | ||
زندگی موت سے کب خجل ہوسکی | ||
تیرگی قسمتِ آب و گل ہو سکی | ||
روشنی نسلِ آدم کی میراث ہے | ||
اور انساں رہا موت پر خندہ زن | ||
از کراں تا کراں ، از زماں تا زمن | ||
جس طرح رات پر صبحِ نو | ||
غم رسیدہ نہ ہو ، آبدیدہ نہ ہو | ||
قافلہ تو ہمیشہ رہا تیز رَو | ||
ایک مشعل بجھی ، دوسری جل گئی | ||
ایک مر جھا گئی ، اک کلی کھل اُٹھی | ||
وہ جوانساں ہیں | ||
اک کلی کے لیے ، اک کرن کے لیے | ||
جاں لٹاتے رہے ، سر کٹاتے رہے | ||
ہم کسی قلّۂ کو ہ پر سچ کہو | ||
روشنی کے لیے آگ لینے گئے؟ | ||
ہم نے جب بھی چراغ اپنا روشن کیا | ||
اس میں اپنا ہی خونِ جگر ، خونِ ارماں جلا | ||
ہم اُجالوں کے رسیا کہیں بھی تھمے؟ | ||
ہاتھ میں ٹمٹماتا ہوا اِک دیا | ||
ہاتھ سے ہاتھ تک ہی پہنچتا رہا | ||
آندھیاں ، ظلمتیں ، زلزلے | ||
موج در موج تھیں ، پیچ در پیچ تھے | ||
ہم اُجالے کی بس اک کرن کے لیے | ||
طوق و زنداں کی ایک اک کڑی جھیلتے | ||
ایک دو دن نہیں ، سیکڑوں سال سے | ||
زہر پیتے رہے ، جا ں گنواتے رہے | ||
(لوگ آتے رہے لوگ جاتے رہے) | ||
زیست سے مرگ تک ، موت سے مہد تک | ||
دشت سے دشت تک ، عہد سے عہد تک | ||
ہاتھ کٹتے رہے اور ننھا سا اک روشنی کا پیامی دیا | ||
ہاتھ سے ہاتھ تک منتقل ہوتا جا تا رہا | ||
جگمگاتا رہا | ||
وہ دیا جس کو سورج بنانے چلے | ||
اور خود ظلمتوں میں بھٹکتے رہے | ||
وقت آواز ہے ، وقت للکار ہے | ||
اور ہر دَور میں سر پھرے | ||
اُس کے احکام پر چل پڑے | ||
ان کو صدیوں کی چالوں سے کیا واسطہ | ||
وہ جولمحوں کی اُنگلی پکڑ کر چلے | ||
وقت نے ٹھیر کر ان کو تعظیم دی | ||
اور وہ دل جلے ، سر پھرے | ||
آگے بڑھتے گئے | ||
با رہا راہ میں | ||
جوتھکے بھی نہ تھے ہم سفر سو گئے | ||
اور اُجاگر مگر راستے ہو گئے | ||
جوقدم بڑھ گئے کب وہ پیچھے ہٹے | ||
اور بڑھتے گئے ، اور بڑھتے گئے | ||
ان رہوں میں نہیں ویت نام اور کشمیر ہی | ||
ایسے قریے بھی تھے جن کو تاریخ بھی | ||
نام اب تک نہیں دے سکی | ||
اور انسانیت کا وہ ننھا دیا | ||
زندگی کے خم و پیچ سے آشنا | ||
زندگی کے خم و پیچ سے بے خبر | ||
کر گیا تاب دار اپنے مقدور بھر | ||
ایک اک بام و در ، ایک اک رہ گزر | ||
اک نہ اک شکل سے اک نہ اک روپ میں | ||
تیرگی میں کبھی اور کبھی دھوپ میں | ||
زندگانی کے ماتھے کا ٹیکا سدا جگمگاتا رہا | ||
سچ کہو دوستو ، سچ کہو ساتھیو! | ||
تم نے انساں کو مرتے بھی دیکھا کبھی | ||
اس کے دامن کو دستِ اجل چھوسکا؟ | ||
(۱۹۶۷ء) |