کیا مطمئن ہیں بارِ غمِ زندگی لیے |
جو باوجودِ مرگِ تمناّ بھی جی لیے |
بے حس نہیں کہ سنگِ سرِ راہ جانیے |
ساکت ہیں اہلِ ظرف غمِ آگہی لیے |
ہونے لگا دلوں کو دھڑکنے سے احتراز |
کس کس نے آج چاک گریبان سی لیے |
پائے جنوں کو وسعتِ صحرائے دل بہت |
پھرتے رہے ندامتِ فرزانگی لیے |
حائل رہی ہے راہ میں دیوار برگِ گل |
پلٹے ہیں شہر درد سے دست تہی لیے |
اشعار میں ڈھلے ہیں کئی پارہ ہائے دل |
آنسو نہ تھے کہ ہم نے مروّت میں پی لیے |
بات آ پڑی نگاہ کی ورنہ یہاں اداؔ |
کانٹے بھی ہیں شگوفوں کی شائستگی لیے |
(۱۹۶۷ء) |
کیا مطمئن ہیں بارِ غمِ زندگی لیے |
جو باوجودِ مرگِ تمناّ بھی جی لیے |
بے حس نہیں کہ سنگِ سرِ راہ جانیے |
ساکت ہیں اہلِ ظرف غمِ آگہی لیے |
ہونے لگا دلوں کو دھڑکنے سے احتراز |
کس کس نے آج چاک گریبان سی لیے |
پائے جنوں کو وسعتِ صحرائے دل بہت |
پھرتے رہے ندامتِ فرزانگی لیے |
حائل رہی ہے راہ میں دیوار برگِ گل |
پلٹے ہیں شہر درد سے دست تہی لیے |
اشعار میں ڈھلے ہیں کئی پارہ ہائے دل |
آنسو نہ تھے کہ ہم نے مروّت میں پی لیے |
بات آ پڑی نگاہ کی ورنہ یہاں اداؔ |
کانٹے بھی ہیں شگوفوں کی شائستگی لیے |
(۱۹۶۷ء) |