وہ خواب جیسے لوگ تھے | ||
جو حسن اور عشق کی کتاب | ||
لکھتے لکھتے سو گئے | ||
جو زندگی کا زرنگار باب | ||
لکھتے لکھتے کھو گئے | ||
ہواؤ! تم تو دیکھتی رہی ہو | ||
تم کہو کہاں گئے | ||
وہ ہم میں آج کیوں نہیں | ||
جو وادیِ جمال سے | ||
کھلی ہتھیلیوں، برہنہ سر چلے گئے | ||
وہ بے ہنر نہ تھے | ||
تمام بستیاں گواہ ہیں | ||
تمام وادیاں گواہ ہیں | ||
جو تشنگی کی دُھوپ میں جھلس گئے | ||
جو آندھیوں میں مثلِ خارو خس گئے | ||
شجر تھے اور بے ثمر نہ تھے | ||
جو پتھروں تلے کچل گئے | ||
جو حوصلے صعوبتوں میں ڈھل گئے | ||
جو امن اور آشتی کی آرزو میں مر گئے | ||
گزر گئے | ||
وہ بے بصر نہ تھے | ||
وہ زندگی کے ترجماں تھے | ||
اور بے خبر نہ تھے! |
وہ خواب جیسے لوگ تھے | ||
جو حسن اور عشق کی کتاب | ||
لکھتے لکھتے سو گئے | ||
جو زندگی کا زرنگار باب | ||
لکھتے لکھتے کھو گئے | ||
ہواؤ! تم تو دیکھتی رہی ہو | ||
تم کہو کہاں گئے | ||
وہ ہم میں آج کیوں نہیں | ||
جو وادیِ جمال سے | ||
کھلی ہتھیلیوں، برہنہ سر چلے گئے | ||
وہ بے ہنر نہ تھے | ||
تمام بستیاں گواہ ہیں | ||
تمام وادیاں گواہ ہیں | ||
جو تشنگی کی دُھوپ میں جھلس گئے | ||
جو آندھیوں میں مثلِ خارو خس گئے | ||
شجر تھے اور بے ثمر نہ تھے | ||
جو پتھروں تلے کچل گئے | ||
جو حوصلے صعوبتوں میں ڈھل گئے | ||
جو امن اور آشتی کی آرزو میں مر گئے | ||
گزر گئے | ||
وہ بے بصر نہ تھے | ||
وہ زندگی کے ترجماں تھے | ||
اور بے خبر نہ تھے! |