تجھے جب بھی سوچوں | ||
روشنی ایسی جسے لفظ بیاں کر نہ سکیں | ||
جتنی سرشار ہوں میں | ||
اتنی ہی شرمندہ ہوں | ||
میرے مولا، مرے آقا مرے رب! | ||
جانی اَن جانی خطائیں | ||
مجھے گھیرے ہوئے ہیں | ||
جھولی پھیلائے ترے عفو و کرم کی طالب | ||
کیسے دہلیز کو میں پار کروں | ||
میں اندھیروں میں رہی ہوں اب تک | ||
اتنے پاکیزہ منزّہ ترے دربار میں آؤں کیسے | ||
تو ہی سب جانتا ہے | ||
تو رگِ جاں سے قریں | ||
دل میں مکیں | ||
کیا نہیں تونے دیا | ||
جو ملا تجھ سے ملا | ||
میں نے جو چاہا | ||
فقط تجھ سے ہی چاہا، مانگا | ||
بے سبب بھی مجھے کیا کچھ نہ عطا تو نے کیا | ||
کیا نہ دیا | ||
میری ہر سانس ترا شکرانہ | ||
اور میں تیری عبادت کا | ||
کوئی حق بھی ادا کر نہ سکی | ||
کاش ہر لمحہ ترے نام بسر ہو جاتا | ||
تیرا احسان ہے مولا! | ||
ترے بندوں کا کوئی قرض نہیں ہے مجھ پر | ||
جانتے بوجھتے ہرگز | ||
تیرے بندوں کا کبھی دل نہ دُکھایا میں نے | ||
اور تو جانتا ہے | ||
تیرے بندوں سے کوئی آس نہ رکھی میں نے | ||
ہے یقیں مجھ سے کسی کو | ||
کوئی تکلیف نہ پہنچی ہوگی | ||
جس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی | ||
میں تو مٹی کا گھروندا ہوں | ||
بہت خامیاں | ||
کوتاہیاں مجھ میں ہیں گندھی | ||
مرے مولا، مرے آقا، مرے رب! | ||
اب یہ مٹی کا گھروندا مجھے دُکھ دیتا ہے | ||
میرے احوال سے تو واقف ہے | ||
درد ایسا جسے سہ بھی نہ سکوں | ||
تو نہ اگر ہمت دے | ||
تو بصیر اور علیم | ||
تو رحیم اور کریم | ||
اپنا چین اپنی خوشی | ||
میں تجھے سونپ رہی ہوں | ||
کہ ترے در سے کبھی | ||
کوئی مایوس نہیں پلٹا ہے | ||
تو عزیز اور حفیظ | ||
اب مرے دل کو اُجالا دے دے! | ||
(آمین!) |
تجھے جب بھی سوچوں | ||
روشنی ایسی جسے لفظ بیاں کر نہ سکیں | ||
جتنی سرشار ہوں میں | ||
اتنی ہی شرمندہ ہوں | ||
میرے مولا، مرے آقا مرے رب! | ||
جانی اَن جانی خطائیں | ||
مجھے گھیرے ہوئے ہیں | ||
جھولی پھیلائے ترے عفو و کرم کی طالب | ||
کیسے دہلیز کو میں پار کروں | ||
میں اندھیروں میں رہی ہوں اب تک | ||
اتنے پاکیزہ منزّہ ترے دربار میں آؤں کیسے | ||
تو ہی سب جانتا ہے | ||
تو رگِ جاں سے قریں | ||
دل میں مکیں | ||
کیا نہیں تونے دیا | ||
جو ملا تجھ سے ملا | ||
میں نے جو چاہا | ||
فقط تجھ سے ہی چاہا، مانگا | ||
بے سبب بھی مجھے کیا کچھ نہ عطا تو نے کیا | ||
کیا نہ دیا | ||
میری ہر سانس ترا شکرانہ | ||
اور میں تیری عبادت کا | ||
کوئی حق بھی ادا کر نہ سکی | ||
کاش ہر لمحہ ترے نام بسر ہو جاتا | ||
تیرا احسان ہے مولا! | ||
ترے بندوں کا کوئی قرض نہیں ہے مجھ پر | ||
جانتے بوجھتے ہرگز | ||
تیرے بندوں کا کبھی دل نہ دُکھایا میں نے | ||
اور تو جانتا ہے | ||
تیرے بندوں سے کوئی آس نہ رکھی میں نے | ||
ہے یقیں مجھ سے کسی کو | ||
کوئی تکلیف نہ پہنچی ہوگی | ||
جس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی | ||
میں تو مٹی کا گھروندا ہوں | ||
بہت خامیاں | ||
کوتاہیاں مجھ میں ہیں گندھی | ||
مرے مولا، مرے آقا، مرے رب! | ||
اب یہ مٹی کا گھروندا مجھے دُکھ دیتا ہے | ||
میرے احوال سے تو واقف ہے | ||
درد ایسا جسے سہ بھی نہ سکوں | ||
تو نہ اگر ہمت دے | ||
تو بصیر اور علیم | ||
تو رحیم اور کریم | ||
اپنا چین اپنی خوشی | ||
میں تجھے سونپ رہی ہوں | ||
کہ ترے در سے کبھی | ||
کوئی مایوس نہیں پلٹا ہے | ||
تو عزیز اور حفیظ | ||
اب مرے دل کو اُجالا دے دے! | ||
(آمین!) |