(یہ نظم شدید بیماری کی حالت میں لکھی گئی)
تجھے جب بھی سوچوں
روشنی ایسی جسے لفظ بیاں کر نہ سکیں
جتنی سرشار ہوں میں
اتنی ہی شرمندہ ہوں
میرے مولا، مرے آقا مرے رب!
جانی اَن جانی خطائیں
مجھے گھیرے ہوئے ہیں
جھولی پھیلائے ترے عفو و کرم کی طالب
کیسے دہلیز کو میں پار کروں
میں اندھیروں میں رہی ہوں اب تک
اتنے پاکیزہ منزّہ ترے دربار میں آؤں کیسے
تو ہی سب جانتا ہے
تو رگِ جاں سے قریں
دل میں مکیں
کیا نہیں تونے دیا
جو ملا تجھ سے ملا
میں نے جو چاہا
فقط تجھ سے ہی چاہا، مانگا
بے سبب بھی مجھے کیا کچھ نہ عطا تو نے کیا
کیا نہ دیا
میری ہر سانس ترا شکرانہ
اور میں تیری عبادت کا
کوئی حق بھی ادا کر نہ سکی
کاش ہر لمحہ ترے نام بسر ہو جاتا
تیرا احسان ہے مولا!
ترے بندوں کا کوئی قرض نہیں ہے مجھ پر
جانتے بوجھتے ہرگز
تیرے بندوں کا کبھی دل نہ دُکھایا میں نے
اور تو جانتا ہے
تیرے بندوں سے کوئی آس نہ رکھی میں نے
ہے یقیں مجھ سے کسی کو
کوئی تکلیف نہ پہنچی ہوگی
جس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی
میں تو مٹی کا گھروندا ہوں
بہت خامیاں
کوتاہیاں مجھ میں ہیں گندھی
مرے مولا، مرے آقا، مرے رب!
اب یہ مٹی کا گھروندا مجھے دُکھ دیتا ہے
میرے احوال سے تو واقف ہے
درد ایسا جسے سہ بھی نہ سکوں
تو نہ اگر ہمت دے
تو بصیر اور علیم
تو رحیم اور کریم
اپنا چین اپنی خوشی
میں تجھے سونپ رہی ہوں
کہ ترے در سے کبھی
کوئی مایوس نہیں پلٹا ہے
تو عزیز اور حفیظ
اب مرے دل کو اُجالا دے دے!
(آمین!)
(یہ نظم شدید بیماری کی حالت میں لکھی گئی)
تجھے جب بھی سوچوں
روشنی ایسی جسے لفظ بیاں کر نہ سکیں
جتنی سرشار ہوں میں
اتنی ہی شرمندہ ہوں
میرے مولا، مرے آقا مرے رب!
جانی اَن جانی خطائیں
مجھے گھیرے ہوئے ہیں
جھولی پھیلائے ترے عفو و کرم کی طالب
کیسے دہلیز کو میں پار کروں
میں اندھیروں میں رہی ہوں اب تک
اتنے پاکیزہ منزّہ ترے دربار میں آؤں کیسے
تو ہی سب جانتا ہے
تو رگِ جاں سے قریں
دل میں مکیں
کیا نہیں تونے دیا
جو ملا تجھ سے ملا
میں نے جو چاہا
فقط تجھ سے ہی چاہا، مانگا
بے سبب بھی مجھے کیا کچھ نہ عطا تو نے کیا
کیا نہ دیا
میری ہر سانس ترا شکرانہ
اور میں تیری عبادت کا
کوئی حق بھی ادا کر نہ سکی
کاش ہر لمحہ ترے نام بسر ہو جاتا
تیرا احسان ہے مولا!
ترے بندوں کا کوئی قرض نہیں ہے مجھ پر
جانتے بوجھتے ہرگز
تیرے بندوں کا کبھی دل نہ دُکھایا میں نے
اور تو جانتا ہے
تیرے بندوں سے کوئی آس نہ رکھی میں نے
ہے یقیں مجھ سے کسی کو
کوئی تکلیف نہ پہنچی ہوگی
جس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتی
میں تو مٹی کا گھروندا ہوں
بہت خامیاں
کوتاہیاں مجھ میں ہیں گندھی
مرے مولا، مرے آقا، مرے رب!
اب یہ مٹی کا گھروندا مجھے دُکھ دیتا ہے
میرے احوال سے تو واقف ہے
درد ایسا جسے سہ بھی نہ سکوں
تو نہ اگر ہمت دے
تو بصیر اور علیم
تو رحیم اور کریم
اپنا چین اپنی خوشی
میں تجھے سونپ رہی ہوں
کہ ترے در سے کبھی
کوئی مایوس نہیں پلٹا ہے
تو عزیز اور حفیظ
اب مرے دل کو اُجالا دے دے!
(آمین!)
عرضِ حال
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more