داستاں گونے کہا |
نسلوں پہ بیتی |
اس کہانی کو کہیں تو ختم ہونا ہے |
کہ ظلم و جور کی دُنیا میں |
دُکھ پہلے بھی لَو دیتے رہے ہیں |
آج تک ہوتا ہی آیا ہے |
دیے بجھتے رہے، جلتے رہے ہیں |
اور اب آگے کا قصہ |
اُن کو خود تحریر کرنا ہے |
جو سب زخمی دنوں |
اندھی رُتوں کو جھیل آئیں گے |
وہ جن کو زندگی تقدیر کرنا ہے |
ستم گر وقت کو تسخیر کرنا ہے |
وہی جو خوف کے گہرے کنویں |
طوفانِ گرد و باد میں بھی |
سانس لینے کے ہنر سے آشنا ہیں |
جو اپنے بال و پر سے آشنا ہیں |
اب آگے کی کہانی اُن سے سننا |
وہ جن کو عشق کی تفسیر کرنا ہے |
کہ یہ جو درد ہے |
یہ خود ہی چار ہ ساز ہوتا ہے |
کہ یہ جو زخم ہیں |
کارِ ِمسیحائی بھی کرتے ہیں! |
داستاں گونے کہا |
نسلوں پہ بیتی |
اس کہانی کو کہیں تو ختم ہونا ہے |
کہ ظلم و جور کی دُنیا میں |
دُکھ پہلے بھی لَو دیتے رہے ہیں |
آج تک ہوتا ہی آیا ہے |
دیے بجھتے رہے، جلتے رہے ہیں |
اور اب آگے کا قصہ |
اُن کو خود تحریر کرنا ہے |
جو سب زخمی دنوں |
اندھی رُتوں کو جھیل آئیں گے |
وہ جن کو زندگی تقدیر کرنا ہے |
ستم گر وقت کو تسخیر کرنا ہے |
وہی جو خوف کے گہرے کنویں |
طوفانِ گرد و باد میں بھی |
سانس لینے کے ہنر سے آشنا ہیں |
جو اپنے بال و پر سے آشنا ہیں |
اب آگے کی کہانی اُن سے سننا |
وہ جن کو عشق کی تفسیر کرنا ہے |
کہ یہ جو درد ہے |
یہ خود ہی چار ہ ساز ہوتا ہے |
کہ یہ جو زخم ہیں |
کارِ ِمسیحائی بھی کرتے ہیں! |