ہمارے زخمِ سفر کا جواب کوئی نہ تھا |
بھری بہار میں ایسا گلاب کوئی نہ تھا |
ہمیں ، ہمارے اُجالوں میں دیکھنا ہوگا |
یہ کیوں گمان کہ دل کا نصاب کوئی نہ تھا |
زمیں کی آنچ بہت دُور آسماں سے رہی |
ہماری سمت جو آتا سحاب کوئی نہ تھا |
جو انحصار تھا وہ دل کے موسموں پہ رہا |
کہ روز و شب کا شمار و حساب کوئی نہ تھا |
جواز حالِ پر یشاں کا پوچھیے کس سے |
کہ دیکھتی ہوئی آنکھوں میں خواب کوئی نہ تھا |
محبتوں کو عبادت بنا لیا ہم نے |
ہماری راہ میں حائل سراب کوئی نہ تھا |
ہمارے زخمِ سفر کا جواب کوئی نہ تھا |
بھری بہار میں ایسا گلاب کوئی نہ تھا |
ہمیں ، ہمارے اُجالوں میں دیکھنا ہوگا |
یہ کیوں گمان کہ دل کا نصاب کوئی نہ تھا |
زمیں کی آنچ بہت دُور آسماں سے رہی |
ہماری سمت جو آتا سحاب کوئی نہ تھا |
جو انحصار تھا وہ دل کے موسموں پہ رہا |
کہ روز و شب کا شمار و حساب کوئی نہ تھا |
جواز حالِ پر یشاں کا پوچھیے کس سے |
کہ دیکھتی ہوئی آنکھوں میں خواب کوئی نہ تھا |
محبتوں کو عبادت بنا لیا ہم نے |
ہماری راہ میں حائل سراب کوئی نہ تھا |