بے چین شب و روز کو بہلائے ہوئے ہیں |
معبد سے کسی خواب کے ہم آئے ہوئے ہیں |
دل کے سبھی منظر تری آنکھوں نے لکھے تھے |
آ دیکھ یہ منظر ابھی اُجلائے ہوئے ہیں |
دہلیز سے باہر تو قدم ہی نہیں رکھا |
کیا رنگ تھا جس رنگ کے مہکائے ہوئے ہیں |
برسات کے بادل کبھی ایسے نہیں ہوتے |
جو ٹوٹ کے برسے بھی مگر چھائے ہوئے ہیں |
اے وعدہ گرو! اب کے خموشی ہی سخن ہو |
الفاظ کی زنجیر کے زخمائے ہوئے ہیں |
اب فیصلے انسان کو کرنا ہیں ، ابھی تو |
کچھ وہم ہیں ، کچھ خوف ہیں ، اُلجھائے ہوئے ہیں |
تاریخ کے صفحات سے لیتے ہیں گواہی |
وہ لوگ جو امروز کے ٹھکرائے ہوئے ہیں |
بے چین شب و روز کو بہلائے ہوئے ہیں |
معبد سے کسی خواب کے ہم آئے ہوئے ہیں |
دل کے سبھی منظر تری آنکھوں نے لکھے تھے |
آ دیکھ یہ منظر ابھی اُجلائے ہوئے ہیں |
دہلیز سے باہر تو قدم ہی نہیں رکھا |
کیا رنگ تھا جس رنگ کے مہکائے ہوئے ہیں |
برسات کے بادل کبھی ایسے نہیں ہوتے |
جو ٹوٹ کے برسے بھی مگر چھائے ہوئے ہیں |
اے وعدہ گرو! اب کے خموشی ہی سخن ہو |
الفاظ کی زنجیر کے زخمائے ہوئے ہیں |
اب فیصلے انسان کو کرنا ہیں ، ابھی تو |
کچھ وہم ہیں ، کچھ خوف ہیں ، اُلجھائے ہوئے ہیں |
تاریخ کے صفحات سے لیتے ہیں گواہی |
وہ لوگ جو امروز کے ٹھکرائے ہوئے ہیں |