آپ ہی آپ ہوا جیسے تقاضا کوئی

آپ ہی آپ ہُوا جیسے تقاضا کوئی
دل سے ہو کر ابھی پھر قافلہ گزرا کوئی
مطلعِ جاں بھی ، دل آویز قیامت بھی وہی
میرے ہاتھوں میں جو لمحہ تھا دُعا سا کوئی
داستاں سننے کو اب لوگ یہاں آتے ہیں
پہلے پہلے تو یہاں شہر بسا تھا کوئی
اب کے موسم نے گلابوں کا تقاضا نہ کیا
ورنہ وادی میں ابھی آبلہ پا تھا کوئی
کوئی طائر اِدھر آیا ہی نہیں ہے کب سے
گھر کے آنگن میں کہیں دُھوپ نہ سایا کوئی
فون بجتا ہے تو اب دل پہ گزرتا ہے گراں
کسی آواز کا بنتا نہیں نقشہ کوئی
تم ہمیں دیکھنا چاہو تو بہانے بھی بہت
ویسے ہوتے ہوئے اکثر نہیں ہوتا کوئی
آنکھ تو ہم نے بھی پھولوں کی طرح کھولی تھی
رنگ پھولوں کی قبا کا ہمیں ملتا کوئی
آپ ہی آپ ہُوا جیسے تقاضا کوئی
دل سے ہو کر ابھی پھر قافلہ گزرا کوئی
مطلعِ جاں بھی ، دل آویز قیامت بھی وہی
میرے ہاتھوں میں جو لمحہ تھا دُعا سا کوئی
داستاں سننے کو اب لوگ یہاں آتے ہیں
پہلے پہلے تو یہاں شہر بسا تھا کوئی
اب کے موسم نے گلابوں کا تقاضا نہ کیا
ورنہ وادی میں ابھی آبلہ پا تھا کوئی
کوئی طائر اِدھر آیا ہی نہیں ہے کب سے
گھر کے آنگن میں کہیں دُھوپ نہ سایا کوئی
فون بجتا ہے تو اب دل پہ گزرتا ہے گراں
کسی آواز کا بنتا نہیں نقشہ کوئی
تم ہمیں دیکھنا چاہو تو بہانے بھی بہت
ویسے ہوتے ہوئے اکثر نہیں ہوتا کوئی
آنکھ تو ہم نے بھی پھولوں کی طرح کھولی تھی
رنگ پھولوں کی قبا کا ہمیں ملتا کوئی
آپ ہی آپ ہوا جیسے تقاضا کوئی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more