ذوقِ تقصیر کہو، حیلۂ تعزیر کہو

ذوقِ تقصیر کہو ، حیلۂ تعزیر کہو
اور جو چاہو کہو ، عشق کو تقدیر کہو
یہی آدابِ مروّت — یہی آدابِ وفا
ہو خطا ان سے تو اپنی اسے تقصیر کہو
زخم کو پھول کہا ، داغ کو مہتاب کہا
اور کچھ کہنا ہے زندانیِ تقریر — کہو
حوصلہ دیکھ لیں ہم بھی سرِ خرمن اپنا
اور باقی ہے کو ئی شعلۂ تدبیر کہو
اب جنوں کو بھی ہے پابندیِ آدابِ جنوں
غم کو آسائشِ جاں ، آہ کو تاثیر کہو
ہر نفس کتنی تمنائیں ہیں دامن تھامے
کتنے حلقے ہیں سرِ حلقۂ زنجیر کہو
اپنی دُنیا میں صداقت کی کسے تاب اداؔ
چال کو نکہتِ گل ، زلف کو زنجیر کہو
(۱۹۶۵ء)
ذوقِ تقصیر کہو ، حیلۂ تعزیر کہو
اور جو چاہو کہو ، عشق کو تقدیر کہو
یہی آدابِ مروّت — یہی آدابِ وفا
ہو خطا ان سے تو اپنی اسے تقصیر کہو
زخم کو پھول کہا ، داغ کو مہتاب کہا
اور کچھ کہنا ہے زندانیِ تقریر — کہو
حوصلہ دیکھ لیں ہم بھی سرِ خرمن اپنا
اور باقی ہے کو ئی شعلۂ تدبیر کہو
اب جنوں کو بھی ہے پابندیِ آدابِ جنوں
غم کو آسائشِ جاں ، آہ کو تاثیر کہو
ہر نفس کتنی تمنائیں ہیں دامن تھامے
کتنے حلقے ہیں سرِ حلقۂ زنجیر کہو
اپنی دُنیا میں صداقت کی کسے تاب اداؔ
چال کو نکہتِ گل ، زلف کو زنجیر کہو
(۱۹۶۵ء)
ذوقِ تقصیر کہو، حیلۂ تعزیر کہو
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more