یہی آئینِ وفا ہے اب کے
دل دھڑکنا بھی خطا ہے اب کے
دل خطا وارِ وفا تھا پہلے
پھر طلب گارِ سزا ہے اب کے
کس نے کی جرأتِ اظہارِ جنوں
زہر کس کس نے پیا ہے اب کے
پاؤں جلتے ہیں قدم دھرتے ہی
امتحاں ، آبلہ پا! ہے اب کے
کُھل کے برسی نہ کُھلی ہے ظالم
کیسی گھنگھور گھٹا ہے اب کے
ہم تو واماندۂ محفل ٹھہرے
رنگِ محفل نہ جما ہے اب کے
دل سا رہزن ہے ، نہ دل سا رہبر
آرزو قبلہ نما ہے اب کے
کتنا نازک سا سہارا ہے اُمید
حیلۂ لغزشِ پا ہے اب کے
(۱۹۶۶ء)
یہی آئینِ وفا ہے اب کے
دل دھڑکنا بھی خطا ہے اب کے
دل خطا وارِ وفا تھا پہلے
پھر طلب گارِ سزا ہے اب کے
کس نے کی جرأتِ اظہارِ جنوں
زہر کس کس نے پیا ہے اب کے
پاؤں جلتے ہیں قدم دھرتے ہی
امتحاں ، آبلہ پا! ہے اب کے
کُھل کے برسی نہ کُھلی ہے ظالم
کیسی گھنگھور گھٹا ہے اب کے
ہم تو واماندۂ محفل ٹھہرے
رنگِ محفل نہ جما ہے اب کے
دل سا رہزن ہے ، نہ دل سا رہبر
آرزو قبلہ نما ہے اب کے
کتنا نازک سا سہارا ہے اُمید
حیلۂ لغزشِ پا ہے اب کے
(۱۹۶۶ء)
یہی آئینِ وفا ہے اب کے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more