یاد کے کھلونوں سے ہم نے دل کوبہلایا

یاد کے کھلونوں سے ہم نے دل کو بہلایا
آپ شمع ِ محفل تھے ، آپ کیوں رہے تنہا
زہر ہے صداقت بھی ، تاب لائیں گے کیوں کر
سوچتے ہیں کیا کہیے ، حالِ دل اگر پوچھا
اونچ نیچ رستے میں آخر آ ہی جاتی ہے
ہم تو خیر اپنے ہیں ، ہم نے کب تمھیں ٹوکا
راہزن سے کیوں پوچھیں ، راہبر سے کیا پوچھیں
اپنے دل کے ویرانے ہاتھ میں چراغ اپنا
ایک قطرہ ٔ شبنم ، چند اَدھ کھلی کھلیاں
دیکھیے تو کافی ہے زندگی کا سر مایا!
اک کرن تبسم کی زادِ راہ بن جاتی
اور دل نے کیا مانگا ، اور ہم نے کیا چاہا
تیری یاد کے دل پر یوں بھی کتنے احساں ہیں
سن رہے ہیں کٹتی ہیں منزلیں کٹھن تنہا
پوچھتے ہیں یاد آئیں کون سی تمنائیں
کیا بتائیں اب ان کو بھولنا پڑا کیا کیا
صبح اتنی ہی روشن ، پھول ویسے ہی خنداں
یاس کے ردیچوں سے جب بھی جھانک کر دیکھا
دل ٹھہر ہی جائے گا ، زخم بھر ہی آتے ہیں
کس نے ہاتھ تھاما ہے ، کس نے دل کا غم بانٹا
(۱۹۶۶ء)
یاد کے کھلونوں سے ہم نے دل کو بہلایا
آپ شمع ِ محفل تھے ، آپ کیوں رہے تنہا
زہر ہے صداقت بھی ، تاب لائیں گے کیوں کر
سوچتے ہیں کیا کہیے ، حالِ دل اگر پوچھا
اونچ نیچ رستے میں آخر آ ہی جاتی ہے
ہم تو خیر اپنے ہیں ، ہم نے کب تمھیں ٹوکا
راہزن سے کیوں پوچھیں ، راہبر سے کیا پوچھیں
اپنے دل کے ویرانے ہاتھ میں چراغ اپنا
ایک قطرہ ٔ شبنم ، چند اَدھ کھلی کھلیاں
دیکھیے تو کافی ہے زندگی کا سر مایا!
اک کرن تبسم کی زادِ راہ بن جاتی
اور دل نے کیا مانگا ، اور ہم نے کیا چاہا
تیری یاد کے دل پر یوں بھی کتنے احساں ہیں
سن رہے ہیں کٹتی ہیں منزلیں کٹھن تنہا
پوچھتے ہیں یاد آئیں کون سی تمنائیں
کیا بتائیں اب ان کو بھولنا پڑا کیا کیا
صبح اتنی ہی روشن ، پھول ویسے ہی خنداں
یاس کے ردیچوں سے جب بھی جھانک کر دیکھا
دل ٹھہر ہی جائے گا ، زخم بھر ہی آتے ہیں
کس نے ہاتھ تھاما ہے ، کس نے دل کا غم بانٹا
(۱۹۶۶ء)
یاد کے کھلونوں سے  ہم نے دل کوبہلایا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more