وہی شعلہ ، وہی شعلے کی لپک ہے کہ نہیں |
اب نگاہوں میں غمِ دل کی تپک ہے کہ نہیں |
رہروِ شوق! کہو آج بھی تاحدِّ نگاہ |
کوئی نا گفتہ تمنا کی دھنک ہے کہ نہیں |
سر حدِ ہوش سے گزرے کہ نہیں دیوانے |
شہرِ دل ! تیر ے مسافر کو جھجک ہے کہ نہیں |
ہاں وہ تقصیر کہ گردن زدنی ہیں جس پر |
حاصل ِ عمر وہی ایک کسک ہے کہ نہیں |
نغمہ و رنگ کے با وصف محیط ِ عالم |
اپنے ٹوٹے ہوئے شیشے کی کھنک ہے کہ نہیں |
جس نے لغزیدہ تمنا کے قدم تھامے ہیں |
تیرے بھولے ہوئے وعدے کی مہک ہے کہ نہیں |
کون پوچھے یہ بہاراں سے اداؔ اب کے برس |
مرے دل کی ترے پھولوں میں جھلک ہے کہ نہیں |
(۱۹۶۵ء) |
وہی شعلہ ، وہی شعلے کی لپک ہے کہ نہیں |
اب نگاہوں میں غمِ دل کی تپک ہے کہ نہیں |
رہروِ شوق! کہو آج بھی تاحدِّ نگاہ |
کوئی نا گفتہ تمنا کی دھنک ہے کہ نہیں |
سر حدِ ہوش سے گزرے کہ نہیں دیوانے |
شہرِ دل ! تیر ے مسافر کو جھجک ہے کہ نہیں |
ہاں وہ تقصیر کہ گردن زدنی ہیں جس پر |
حاصل ِ عمر وہی ایک کسک ہے کہ نہیں |
نغمہ و رنگ کے با وصف محیط ِ عالم |
اپنے ٹوٹے ہوئے شیشے کی کھنک ہے کہ نہیں |
جس نے لغزیدہ تمنا کے قدم تھامے ہیں |
تیرے بھولے ہوئے وعدے کی مہک ہے کہ نہیں |
کون پوچھے یہ بہاراں سے اداؔ اب کے برس |
مرے دل کی ترے پھولوں میں جھلک ہے کہ نہیں |
(۱۹۶۵ء) |