تم تو زیاں شناسِ نگاہِ وفا رہے

تم تو زیاں شناسِ نگاہِ وفا رہے
دل چاہتا ہے آج کریں ہم بھی تذکرے
کچھ پھول ریت پر جو ہوا نے بنائے تھے
نازک مزاج ، بات اشاروں میں کہہ گئے
کہنے کو ایک پنکھڑی گل سے جدا ہوئی
پل بھر میں ہو گئے ہیں زمانوں کے فاصلے
دُھندلا گئے خلوص کے شیشے تو کیا ہوا
آئینے ہر نگاہ کے ہاتھوں میں دے گئے
آساں ہوئی ہیں رسم وفا کی قباحتیں
اتنی ذرا سی بات پہ کیوں چشمِ تر جلے
تم آشنائے دل تھے کہو تم نے کیا کیا
ہم تو حصارِ انجمن ِ گل کے ہو رہے
سن تو رہے ہیں شہرِ عزیزاں کی دل کشی
ہم بھی وہیں تھے پھر بھی نہ جانے کہا ں رہے
(۱۹۶۷ء)
تم تو زیاں شناسِ نگاہِ وفا رہے
دل چاہتا ہے آج کریں ہم بھی تذکرے
کچھ پھول ریت پر جو ہوا نے بنائے تھے
نازک مزاج ، بات اشاروں میں کہہ گئے
کہنے کو ایک پنکھڑی گل سے جدا ہوئی
پل بھر میں ہو گئے ہیں زمانوں کے فاصلے
دُھندلا گئے خلوص کے شیشے تو کیا ہوا
آئینے ہر نگاہ کے ہاتھوں میں دے گئے
آساں ہوئی ہیں رسم وفا کی قباحتیں
اتنی ذرا سی بات پہ کیوں چشمِ تر جلے
تم آشنائے دل تھے کہو تم نے کیا کیا
ہم تو حصارِ انجمن ِ گل کے ہو رہے
سن تو رہے ہیں شہرِ عزیزاں کی دل کشی
ہم بھی وہیں تھے پھر بھی نہ جانے کہا ں رہے
(۱۹۶۷ء)
تم تو زیاں شناسِ نگاہِ وفا رہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more