شوقِ آشفتہ سراں ، دیدۂ تر مانگے ہے |
ہو وہ کافر جوشبِ غم کی سحر مانگے ہے |
دل کو اندازِ تغافل کے بھی سائے تھے بہت |
پھر بھی نادان ترا سایۂ در مانگے ہے |
دل بدل جاتے ہیں انسان بدل جاتے ہیں |
کوئی دیوانہ وہی شام و سحر مانگے ہے |
یوں نگہ اُٹھی ہے احسان کیا ہو جیسے |
اور تمناّ کہ دعاؤں میں اثر مانگے ہے |
ہر نگہ دعوتِ مے خانہ لیے پھرتی ہے |
دل دوانہ ہے کہدزدیدہ نظر مانگے ہے |
رنگِ گُل، رُوئے سحر ، بوئے صبا کی سوگند |
ہر تماشا مرا انداز نظر مانگے ہے |
آپ سے دل کو توقع تھی پذیرائی کی |
ہائے نادان کہ پھولوں سے شرر مانگے ہے |
دینے والا تو اداؔ شمس و قمر دے دیتا |
مانگنے والا مگر داغِ جگر مانگے ہے |
(۱۹۶۵ء) |
شوقِ آشفتہ سراں ، دیدۂ تر مانگے ہے |
ہو وہ کافر جوشبِ غم کی سحر مانگے ہے |
دل کو اندازِ تغافل کے بھی سائے تھے بہت |
پھر بھی نادان ترا سایۂ در مانگے ہے |
دل بدل جاتے ہیں انسان بدل جاتے ہیں |
کوئی دیوانہ وہی شام و سحر مانگے ہے |
یوں نگہ اُٹھی ہے احسان کیا ہو جیسے |
اور تمناّ کہ دعاؤں میں اثر مانگے ہے |
ہر نگہ دعوتِ مے خانہ لیے پھرتی ہے |
دل دوانہ ہے کہدزدیدہ نظر مانگے ہے |
رنگِ گُل، رُوئے سحر ، بوئے صبا کی سوگند |
ہر تماشا مرا انداز نظر مانگے ہے |
آپ سے دل کو توقع تھی پذیرائی کی |
ہائے نادان کہ پھولوں سے شرر مانگے ہے |
دینے والا تو اداؔ شمس و قمر دے دیتا |
مانگنے والا مگر داغِ جگر مانگے ہے |
(۱۹۶۵ء) |