بال آیا نہ چھنک کر ٹوٹے
ٹوٹنا جن کا مقدر ٹوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر ، ٹوٹے
حسنِ تخلیق کی توہین ہوئی
ناز تخیئل کے شہپر ٹوٹے
نذرِ تادیب ہیں نا گفتہ بیاں
ناتراشیدہ بھی پیکر ٹوٹے
تم اک اُمید کی خاطر روئے
اس صنم زار ہیں آزر ٹوٹے
(۱۹۶۷ء)
بال آیا نہ چھنک کر ٹوٹے
ٹوٹنا جن کا مقدر ٹوٹے
لب پہ الفاظ تو خواب آنکھوں میں
وہ ستارے ہوں کہ ساغر ، ٹوٹے
حسنِ تخلیق کی توہین ہوئی
ناز تخیئل کے شہپر ٹوٹے
نذرِ تادیب ہیں نا گفتہ بیاں
ناتراشیدہ بھی پیکر ٹوٹے
تم اک اُمید کی خاطر روئے
اس صنم زار ہیں آزر ٹوٹے
(۱۹۶۷ء)
شکست
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more