شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی |
کیوں ورنہ انتظار بھی ہے ، اضطرار بھی |
دھیان آگیا تھا مرگِ دل ِ نامراد کا |
ملنے کو مل گیا ہے سکوں بھی ، قرار بھی |
اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو |
حدِ نگاہ تک نہ رہا جب غبار بھی |
ہر آستاں پہ ناصیہ فرسا ہیں آج وہ |
جو کل نہ کر سکے تھے ترا انتظار بھی |
اک راہ رُک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ |
آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی |
(۱۹۶۷ء) |
شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی |
کیوں ورنہ انتظار بھی ہے ، اضطرار بھی |
دھیان آگیا تھا مرگِ دل ِ نامراد کا |
ملنے کو مل گیا ہے سکوں بھی ، قرار بھی |
اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو |
حدِ نگاہ تک نہ رہا جب غبار بھی |
ہر آستاں پہ ناصیہ فرسا ہیں آج وہ |
جو کل نہ کر سکے تھے ترا انتظار بھی |
اک راہ رُک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ |
آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی |
(۱۹۶۷ء) |