سترہ روز کے عہد آفریں ہنگام کے بعد
ڈھونڈنے تم کو چلی آئی ہوں
ساتھیو! ہم سفرو!
کن جزیروں میں چھپے بیٹھے ہو
ہر جزیرے کی الگ اپنی زباں، اپنا لباس
ہر جزیرے کا الگ رنگ، الگ ہے بو باس
تم اکیلے تو نہ تھے
تم وہ ملاح تھے جس کے ہوں کروڑوں بازو
آج ساحل پہ سفینے کو پہنچنا ہوگا
تم اک آواز تھے، آواز سے کل ارض و سما گونج اُٹھے
آج منزل پہ سفینے کو پہنچنا ہو گا
رُخ اُمنڈتی ہوئی موجوں کا بدل جائے گا
آنکھ بھر کے جسے دیکھا وہ پگھل جائے گا
آسمانوں سے ستاروں کو اُترنا ہوگا
آج جینے کی تمنا ہے تو مرنا ہوگا
آگے کیا حکم... جہاں گوش بر آواز رہا
تم کہ اپنے ہی بنائے ہوئے زندانوں میں محبوس رہے
اپنے زنداں سے جو باہر آئے
بن گئے آہنی دیوار پئے دشمنِ دیں
ایک ناقابلِ تسخیر فصیل
اہلِ ایماں تمھیں مردانِ جری کہتے ہیں
پیروِ رسمِ حسین ابنِ علی کہتے ہیں
وہی تم اور وہی عزمِ وفا آج بھی ہے
وہی وابستگیِ صدق و صفا آج بھی ہے
تم کہ آسودۂ ساحل بھی نہیں
مطمئن دل بھی نہیں
آج بھی گل کی قبا پر ہیں لہو کے چھینٹے
کھل کے ہنسنا ابھی کلیوں نے کہ اں سیکھا ہے
آج بھی جنت ِ مقصود ہے زخموں سے نڈھال
اشکِ خونیں ابھی آنکھوں سے چھلک پڑتا ہے
آج بھی ماؤں کی آغوش تہی
تارتار آج بھی بہنوں کی ردا
چاند پر جانے کا رستہ تو اسے سوجھ گیا
ابھی انسان کو آیا نہیں جینے کا چلن
در و دیوار منور ہیں نئے آدم کے
دل کے غاروں میں اُجالے کی نہیں ایک کرن
آج پھر ایک فقط ایک ہی آواز بنو
اپنے زندانوں سے باہر آؤ
خطۂ پاک کے جاں باز جیالے بچو!
(۱۹۶۶ء)
سترہ روز کے عہد آفریں ہنگام کے بعد
ڈھونڈنے تم کو چلی آئی ہوں
ساتھیو! ہم سفرو!
کن جزیروں میں چھپے بیٹھے ہو
ہر جزیرے کی الگ اپنی زباں، اپنا لباس
ہر جزیرے کا الگ رنگ، الگ ہے بو باس
تم اکیلے تو نہ تھے
تم وہ ملاح تھے جس کے ہوں کروڑوں بازو
آج ساحل پہ سفینے کو پہنچنا ہوگا
تم اک آواز تھے، آواز سے کل ارض و سما گونج اُٹھے
آج منزل پہ سفینے کو پہنچنا ہو گا
رُخ اُمنڈتی ہوئی موجوں کا بدل جائے گا
آنکھ بھر کے جسے دیکھا وہ پگھل جائے گا
آسمانوں سے ستاروں کو اُترنا ہوگا
آج جینے کی تمنا ہے تو مرنا ہوگا
آگے کیا حکم... جہاں گوش بر آواز رہا
تم کہ اپنے ہی بنائے ہوئے زندانوں میں محبوس رہے
اپنے زنداں سے جو باہر آئے
بن گئے آہنی دیوار پئے دشمنِ دیں
ایک ناقابلِ تسخیر فصیل
اہلِ ایماں تمھیں مردانِ جری کہتے ہیں
پیروِ رسمِ حسین ابنِ علی کہتے ہیں
وہی تم اور وہی عزمِ وفا آج بھی ہے
وہی وابستگیِ صدق و صفا آج بھی ہے
تم کہ آسودۂ ساحل بھی نہیں
مطمئن دل بھی نہیں
آج بھی گل کی قبا پر ہیں لہو کے چھینٹے
کھل کے ہنسنا ابھی کلیوں نے کہ اں سیکھا ہے
آج بھی جنت ِ مقصود ہے زخموں سے نڈھال
اشکِ خونیں ابھی آنکھوں سے چھلک پڑتا ہے
آج بھی ماؤں کی آغوش تہی
تارتار آج بھی بہنوں کی ردا
چاند پر جانے کا رستہ تو اسے سوجھ گیا
ابھی انسان کو آیا نہیں جینے کا چلن
در و دیوار منور ہیں نئے آدم کے
دل کے غاروں میں اُجالے کی نہیں ایک کرن
آج پھر ایک فقط ایک ہی آواز بنو
اپنے زندانوں سے باہر آؤ
خطۂ پاک کے جاں باز جیالے بچو!
(۱۹۶۶ء)
سترہ دن کے بعد
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more