بے کواڑ دروازے
راہ دیکھتے ہوں گے
طاق بے چراغوں کے
اک کرن اُجالے کی
بھیک مانگتے ہو ں گے
کیوں جھجک گئے راہی!
کیوں ٹھٹک گئے راہی!
ڈھونڈنے کسے جاؤ
انتظار کس کا ہو
راستے میں کچھ ساتھی
رہ بدل بھی جاتے ہیں
پھر کبھی نہ ملنے کو
کچھ بچھڑ بھی جاتے ہیں
قافلہ کبھی ٹھرا—؟
قافلہ کہاں ٹھہرے
راہ کیوں کرے کھوٹی
کس کا آسرادیکھے
چند کانچ کے ٹکڑے
ایک پارۂ بلّور
ننّھے منّے ہاتھوں کا
جن پہ لمس باقی ہے
زادِ راہ کافی ہے
ؔخشک ہو چکے گجرے
کس گلے میں ڈالوگی
بھولی بھٹکی خوشبوؤ!
کس کی راہ روکوگی
کس نے اشک پونچھے ہیں
  کس نے ہاتھ تھاما ہے
  اپنا راستہ ناپو
  بے کواڑ دروازے
  راہ دیکھتے ہو ں گے
کل نئی سحر ہوگی
لاج سے بھری کلیاں
کل بھی مسکرائیں گی
کل کوئی نئی گوری
اَدھ کھلی نئی کلیاں
ہار میں پروئے گی
(۱۹۶۶ء)
بے کواڑ دروازے
راہ دیکھتے ہوں گے
طاق بے چراغوں کے
اک کرن اُجالے کی
بھیک مانگتے ہو ں گے
کیوں جھجک گئے راہی!
کیوں ٹھٹک گئے راہی!
ڈھونڈنے کسے جاؤ
انتظار کس کا ہو
راستے میں کچھ ساتھی
رہ بدل بھی جاتے ہیں
پھر کبھی نہ ملنے کو
کچھ بچھڑ بھی جاتے ہیں
قافلہ کبھی ٹھرا—؟
قافلہ کہاں ٹھہرے
راہ کیوں کرے کھوٹی
کس کا آسرادیکھے
چند کانچ کے ٹکڑے
ایک پارۂ بلّور
ننّھے منّے ہاتھوں کا
جن پہ لمس باقی ہے
زادِ راہ کافی ہے
ؔخشک ہو چکے گجرے
کس گلے میں ڈالوگی
بھولی بھٹکی خوشبوؤ!
کس کی راہ روکوگی
کس نے اشک پونچھے ہیں
  کس نے ہاتھ تھاما ہے
  اپنا راستہ ناپو
  بے کواڑ دروازے
  راہ دیکھتے ہو ں گے
کل نئی سحر ہوگی
لاج سے بھری کلیاں
کل بھی مسکرائیں گی
کل کوئی نئی گوری
اَدھ کھلی نئی کلیاں
ہار میں پروئے گی
(۱۹۶۶ء)
سانجھ بھئی پردیس
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more