ریزہ ریزہ کریں شیشہ پندار کا

ریزہ ریزہ کریں شیشہ پندار کا
جی میں آتا ہے خود ان کو بلوائیے
تلخ کامی سے بدظن ہوئے غیر بھی
کچھ شکر اور لہجے میں گھلوائیے
یہ جوالفاظ ہیں پارۂ دل ہیں یہ
آپ ہیروں میں ان کو نہ تلوائیے
کھیل تقدیر کے خوب تھے ، خوب ہیں
شرطِ آداب ہے منھ نہ کھلوائیے
جاتے جاتے پتا بھی نہ بتلا گئے
جانے والوں کو کس طور بلوائیے
کون پرکھے گا ان موتیوں کو اداؔ
آنسوؤں کو نہ مٹی میں رُلوائیے
(۱۹۶۷ء)
ریزہ ریزہ کریں شیشہ پندار کا
جی میں آتا ہے خود ان کو بلوائیے
تلخ کامی سے بدظن ہوئے غیر بھی
کچھ شکر اور لہجے میں گھلوائیے
یہ جوالفاظ ہیں پارۂ دل ہیں یہ
آپ ہیروں میں ان کو نہ تلوائیے
کھیل تقدیر کے خوب تھے ، خوب ہیں
شرطِ آداب ہے منھ نہ کھلوائیے
جاتے جاتے پتا بھی نہ بتلا گئے
جانے والوں کو کس طور بلوائیے
کون پرکھے گا ان موتیوں کو اداؔ
آنسوؤں کو نہ مٹی میں رُلوائیے
(۱۹۶۷ء)
ریزہ ریزہ کریں شیشہ پندار کا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more