نگاہ طرزِ بیاں پا گئی تو کیا ہوگا |
خلوص ِ شوق پہ آنچ آگئی تو کیا ہوگا |
فریبِ ہوش ، فریبِ نگاہ سے بچ کر |
فریبِ اہلِ وفا کھا گئی تو کیا ہوگا |
یہی نگاہ کہ آوارہ ہے خلاؤں میں |
جب آفتاب سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا |
گلوں کے رنگ میں خون ِ جگر کا رنگ سہی |
بھری بہار بھی کترا گئی تو کیا ہوگا |
اندھیری رات سے پوچھو ، دبے قدم ہی سہی |
حیاتِ نو کی سحر آگئی تو کیا ہوگا |
گماں بھی کر نہ سکے تھے سحر کے متوالے |
نظر فریبِ ضیا کھا گئی تو کیا ہوگا |
یہی حیات کہ ہے واقف ِ رموزِ حیات |
جنوں کا راز کبھی پا گئی تو کیا ہوگا |
تری نگاہ سے روشن ہے داغِ دل کا کنول |
تری نگاہ بھی ترسا گئی تو کیا ہوگا |
شعورِ غم بھی غنیمت ہے زندگی میں اداؔ |
غموں کی دُھوپ بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا |
(۱۹۵۶ء) |
نگاہ طرزِ بیاں پا گئی تو کیا ہوگا |
خلوص ِ شوق پہ آنچ آگئی تو کیا ہوگا |
فریبِ ہوش ، فریبِ نگاہ سے بچ کر |
فریبِ اہلِ وفا کھا گئی تو کیا ہوگا |
یہی نگاہ کہ آوارہ ہے خلاؤں میں |
جب آفتاب سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا |
گلوں کے رنگ میں خون ِ جگر کا رنگ سہی |
بھری بہار بھی کترا گئی تو کیا ہوگا |
اندھیری رات سے پوچھو ، دبے قدم ہی سہی |
حیاتِ نو کی سحر آگئی تو کیا ہوگا |
گماں بھی کر نہ سکے تھے سحر کے متوالے |
نظر فریبِ ضیا کھا گئی تو کیا ہوگا |
یہی حیات کہ ہے واقف ِ رموزِ حیات |
جنوں کا راز کبھی پا گئی تو کیا ہوگا |
تری نگاہ سے روشن ہے داغِ دل کا کنول |
تری نگاہ بھی ترسا گئی تو کیا ہوگا |
شعورِ غم بھی غنیمت ہے زندگی میں اداؔ |
غموں کی دُھوپ بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا |
(۱۹۵۶ء) |