نفرت کی بات تھی ، نہ محبت کی بات تھی |
مرنے چلے تھے جس پہ صداقت کی بات تھی |
جو غم عطا ہوا اُسے دل سے لگا لیا |
سوچو تو کس کے حسنِ عنایت کی بات تھی |
انساں رہا ہے عظمتِ انساں کا معترف |
ذوقِ سجود و شوقِ عبادت کی بات تھی |
وابستگانِ دل تھے ، بہرحال جی لیے |
دار و رسن کے ساتھ روایت کی بات تھی |
کس کس کا نام آج سرِ گفتگو رہا |
شائستگانِ ہوش میں وحشت کی بات تھی |
آفاق سے ملا ہے جہاں غم کا سلسلہ |
ذکر آپ کا نہ تھا ، مری حالت کی بات تھی |
باتوں میں ان کی زہر سا کیوں ہے گھلا ہوا |
لے لو قسم جو لب پہ شکایت کی بات تھی |
کانٹا سا ایک دل میں چبھا ، چبھ کے رہ گیا |
زحمت کسی کو دیتے ندامت کی بات تھی |
پتھر کو جانتے تھے مگر پوجتے رہے |
اہل وفا تھے اور مروّت کی بات تھی |
(۱۹۶۶ء) |
نفرت کی بات تھی ، نہ محبت کی بات تھی |
مرنے چلے تھے جس پہ صداقت کی بات تھی |
جو غم عطا ہوا اُسے دل سے لگا لیا |
سوچو تو کس کے حسنِ عنایت کی بات تھی |
انساں رہا ہے عظمتِ انساں کا معترف |
ذوقِ سجود و شوقِ عبادت کی بات تھی |
وابستگانِ دل تھے ، بہرحال جی لیے |
دار و رسن کے ساتھ روایت کی بات تھی |
کس کس کا نام آج سرِ گفتگو رہا |
شائستگانِ ہوش میں وحشت کی بات تھی |
آفاق سے ملا ہے جہاں غم کا سلسلہ |
ذکر آپ کا نہ تھا ، مری حالت کی بات تھی |
باتوں میں ان کی زہر سا کیوں ہے گھلا ہوا |
لے لو قسم جو لب پہ شکایت کی بات تھی |
کانٹا سا ایک دل میں چبھا ، چبھ کے رہ گیا |
زحمت کسی کو دیتے ندامت کی بات تھی |
پتھر کو جانتے تھے مگر پوجتے رہے |
اہل وفا تھے اور مروّت کی بات تھی |
(۱۹۶۶ء) |