(نئے گھر میں پہلا درخت) |
راز داں بہاروں کے ! |
تم کہ طفلِ ناداں ہو |
جانے کس گلستاں سے |
میرے پاس آپہنچے |
کتنے پیار سے میں نے |
اپنے گھر کے آنگن کی |
تم کو آبرو بخشی |
سال بیت جائیں گے |
جب بہار آئے گی |
ریشمیں شگوفوں کی |
پنکھڑیوں کے سازوں پر |
زمزمے بکھیر و گے |
اپنے آپ میں کھو کر |
نکہتوں کے شہ پارے |
لوحِ جاں پہ لکھو گے |
سوچ ہر جوانی کی |
ناز سب حسینوں کے |
ایک جیسے ہوتے ہیں |
(اپنے عکس کے آگے |
سارے رنگ پھیکے ہیں) |
جب بہار آئے گی |
جانے میں کہاں ہو ں گی |
پیچ و خم سے بنتی ہے |
منزلوں کی پگڈنڈی |
تم تو بھول جاؤ گے |
لمس میرے ہاتھوں کا | |
خواب میری آنکھوں کے | |
میں تمھیں نہ بھولوں گی | |
میں کہ فطرتاً ماں ہوں | |
(۱۹۶۷ء) |
(نئے گھر میں پہلا درخت) |
راز داں بہاروں کے ! |
تم کہ طفلِ ناداں ہو |
جانے کس گلستاں سے |
میرے پاس آپہنچے |
کتنے پیار سے میں نے |
اپنے گھر کے آنگن کی |
تم کو آبرو بخشی |
سال بیت جائیں گے |
جب بہار آئے گی |
ریشمیں شگوفوں کی |
پنکھڑیوں کے سازوں پر |
زمزمے بکھیر و گے |
اپنے آپ میں کھو کر |
نکہتوں کے شہ پارے |
لوحِ جاں پہ لکھو گے |
سوچ ہر جوانی کی |
ناز سب حسینوں کے |
ایک جیسے ہوتے ہیں |
(اپنے عکس کے آگے |
سارے رنگ پھیکے ہیں) |
جب بہار آئے گی |
جانے میں کہاں ہو ں گی |
پیچ و خم سے بنتی ہے |
منزلوں کی پگڈنڈی |
تم تو بھول جاؤ گے |
لمس میرے ہاتھوں کا | |
خواب میری آنکھوں کے | |
میں تمھیں نہ بھولوں گی | |
میں کہ فطرتاً ماں ہوں | |
(۱۹۶۷ء) |