سنتے ہیں کسی ہمدمِ دیرینہ کو اے دل! | ||
فن کار کے ہونٹوں سے صداقت کا گلہ ہے | ||
آدرش کے افلاک سے ہاں موڑ لیا منھ | ||
ذرّوں کی محبت کے گنہ گار رہے ہیں | ||
دل — جن کے دھڑکنے کی صدا گونج رہی ہے | ||
عیسیٰ نہ سہی پھر بھی صلیبوں پہ چڑھے ہیں | ||
دامن جو پکڑ لے وہ بھلا غیر کہ اں ہے | ||
کانٹے بھی رہ ِشوق کے ٹھکرا نہ سکے ہیں | ||
گزری ہے اسی دل سے ہر اک نکہتِ رفتہ | ||
ہر پھول کی آنچ اپنی نگاہوں میں لیے ہیں | ||
ہر شاخِ بریدہ پہ جگر خون ہوا ہے | ||
ہر برگِ گلِ تر کے لیے جاں سے گئے ہیں | ||
پلکوں میں پروئے ہیں ہر اک آنکھ کے موتی | ||
کہنے کو تہی دست و تہی جام رہے ہیں | ||
ہر چوٹ اسی شیشے پہ آ آ کے پڑی ہے | ||
اک مرگِ تمناّ پہ کئی بار مرے ہیں | ||
جھلسیں کہ سلامت رہیں ، وہ ہاتھ ہوں ، دل ہوں | ||
بھڑکی ہے جہاں آگ ، رہا جا نہ سکا ہے | ||
(۱۹۶۷ء) |
سنتے ہیں کسی ہمدمِ دیرینہ کو اے دل! | ||
فن کار کے ہونٹوں سے صداقت کا گلہ ہے | ||
آدرش کے افلاک سے ہاں موڑ لیا منھ | ||
ذرّوں کی محبت کے گنہ گار رہے ہیں | ||
دل — جن کے دھڑکنے کی صدا گونج رہی ہے | ||
عیسیٰ نہ سہی پھر بھی صلیبوں پہ چڑھے ہیں | ||
دامن جو پکڑ لے وہ بھلا غیر کہ اں ہے | ||
کانٹے بھی رہ ِشوق کے ٹھکرا نہ سکے ہیں | ||
گزری ہے اسی دل سے ہر اک نکہتِ رفتہ | ||
ہر پھول کی آنچ اپنی نگاہوں میں لیے ہیں | ||
ہر شاخِ بریدہ پہ جگر خون ہوا ہے | ||
ہر برگِ گلِ تر کے لیے جاں سے گئے ہیں | ||
پلکوں میں پروئے ہیں ہر اک آنکھ کے موتی | ||
کہنے کو تہی دست و تہی جام رہے ہیں | ||
ہر چوٹ اسی شیشے پہ آ آ کے پڑی ہے | ||
اک مرگِ تمناّ پہ کئی بار مرے ہیں | ||
جھلسیں کہ سلامت رہیں ، وہ ہاتھ ہوں ، دل ہوں | ||
بھڑکی ہے جہاں آگ ، رہا جا نہ سکا ہے | ||
(۱۹۶۷ء) |