کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں |
کہنے کو تو جس راہ چلایاہے چلی ہوں |
تم پا س نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا |
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں |
پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم |
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں |
تیرے لیے تقدیر مری جنبشِ ابرو! |
اور میںترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں |
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنتِ انساں |
میں جنت ِ انساں کاپتا پوچھ رہی ہوں |
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے |
کس آس پہ اے سنگِ سرِ راہ چلی ہوں |
جس ہاتھ کی تقدیس نے گلشن کو سنوارا |
اُس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں |
قسمت کے کھلونے ہیں اُجالا کہ اندھیرا |
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں |
(۱۹۶۶ء) |
کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں |
کہنے کو تو جس راہ چلایاہے چلی ہوں |
تم پا س نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا |
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں |
پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم |
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں |
تیرے لیے تقدیر مری جنبشِ ابرو! |
اور میںترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں |
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنتِ انساں |
میں جنت ِ انساں کاپتا پوچھ رہی ہوں |
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے |
کس آس پہ اے سنگِ سرِ راہ چلی ہوں |
جس ہاتھ کی تقدیس نے گلشن کو سنوارا |
اُس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں |
قسمت کے کھلونے ہیں اُجالا کہ اندھیرا |
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں |
(۱۹۶۶ء) |