یہ خاک ِپاکِ وطن ، آبروئے اہلِ وطن
یہی مراد یہی جستجوئے اہلِ وطن
یہ سرخ رُو ہے کہ اس کے جوانِ رعنانے
دیے ہیں خونِ جگر ، خون دل کے نذرانے
نفس نفس میں بسائے بہار کی خوشبو
نظر نظر میں رچائے نگا ر کی خوشبو
کسی کی مانگ کی افشاں ، کسی کی آنکھ کا نور
کسی کی قوتِ بازو ، کسی کا ناز و غرور
رضائے حق کے لیے سوئے کارزار بڑھے
یقین و عزم کی راہوں کے شہ سوار بڑھے
مثالِ شمع ہیں ، شمع ہدیٰ کے پروانے
خدا کے حکم پہ دوڑے ، خدا کے دیوانے
کہاں کہاں سے تمناّ کے قافلے گزرے
وفا کی راہ میں کیا کیا نہ مرحلے آئے
یہیں پہ خونِ شہیداں سے لالہ زار کھلے
یہیں پہ اہلِ شجاعت گلے بقا سے ملے
یہ خاکِ پائے مجاہد ہے احترام کرو
لگاؤ آنکھ سے ، اس خاک کو سلام کرو
اسی کو سرمۂ چشم حیات ہونا تھا
اسی کے ذرّوں کو انجم صفات ہونا تھا
چلو تو نقشِ قدم سے قدم بچا کے چلو
بہ فخر و ناز چلو ، سر مگر جھکا کے چلو
عطائے حق کا یہیں فیضِ عام ہونا تھا
اسی زمین کو گردوں مقام ہونا تھا
یہ راہ حق کے مسافر ، یہ عزم کے پیکر
یہ اہلِ ظرف ، یہ اہلِ ہمم ، یہ اہلِ نظر
مجاہدانِ جری ، غازیانِ سینہ سپر
رہِ نجات کے رہرو ، حیات کے رہبر
سوا خدا کے کسی در پہ یہ جبیں نہ جھکے
یہ صاحبِ عمل و صاحبِ یقیں نہ جھکے
(۱۹۶۵ء)
یہ خاک ِپاکِ وطن ، آبروئے اہلِ وطن
یہی مراد یہی جستجوئے اہلِ وطن
یہ سرخ رُو ہے کہ اس کے جوانِ رعنانے
دیے ہیں خونِ جگر ، خون دل کے نذرانے
نفس نفس میں بسائے بہار کی خوشبو
نظر نظر میں رچائے نگا ر کی خوشبو
کسی کی مانگ کی افشاں ، کسی کی آنکھ کا نور
کسی کی قوتِ بازو ، کسی کا ناز و غرور
رضائے حق کے لیے سوئے کارزار بڑھے
یقین و عزم کی راہوں کے شہ سوار بڑھے
مثالِ شمع ہیں ، شمع ہدیٰ کے پروانے
خدا کے حکم پہ دوڑے ، خدا کے دیوانے
کہاں کہاں سے تمناّ کے قافلے گزرے
وفا کی راہ میں کیا کیا نہ مرحلے آئے
یہیں پہ خونِ شہیداں سے لالہ زار کھلے
یہیں پہ اہلِ شجاعت گلے بقا سے ملے
یہ خاکِ پائے مجاہد ہے احترام کرو
لگاؤ آنکھ سے ، اس خاک کو سلام کرو
اسی کو سرمۂ چشم حیات ہونا تھا
اسی کے ذرّوں کو انجم صفات ہونا تھا
چلو تو نقشِ قدم سے قدم بچا کے چلو
بہ فخر و ناز چلو ، سر مگر جھکا کے چلو
عطائے حق کا یہیں فیضِ عام ہونا تھا
اسی زمین کو گردوں مقام ہونا تھا
یہ راہ حق کے مسافر ، یہ عزم کے پیکر
یہ اہلِ ظرف ، یہ اہلِ ہمم ، یہ اہلِ نظر
مجاہدانِ جری ، غازیانِ سینہ سپر
رہِ نجات کے رہرو ، حیات کے رہبر
سوا خدا کے کسی در پہ یہ جبیں نہ جھکے
یہ صاحبِ عمل و صاحبِ یقیں نہ جھکے
(۱۹۶۵ء)
خاکِ وطن کو سلام
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more