یہ جانتے ہوئے کہ محبت گناہ ہے
کیوں ارتکابِ جرم محبت کیا اداؔ
اس دَور میں کہ آہن و آتش کا دَور ہے
آسائش و نمود و نمائش کا دَور ہے
کلیوں کی آرزو میں بھٹکتی پھری ہو تم
کانٹوں کی تشنگی پہ تڑپتی رہی ہو تم
چوٹیں ہر ایک دل کی اسی دل پہ کھائی ہیں
ذرّوں کا جی دُکھا ہے تو آنکھیں بھر آئی ہیں
ہر غم کو تم نے حاصلِ ارماں بنا لیا
یہ جانتے ہوئے کہ محبت گناہ ہے!
(۱۹۶۷ء)
یہ جانتے ہوئے کہ محبت گناہ ہے
کیوں ارتکابِ جرم محبت کیا اداؔ
اس دَور میں کہ آہن و آتش کا دَور ہے
آسائش و نمود و نمائش کا دَور ہے
کلیوں کی آرزو میں بھٹکتی پھری ہو تم
کانٹوں کی تشنگی پہ تڑپتی رہی ہو تم
چوٹیں ہر ایک دل کی اسی دل پہ کھائی ہیں
ذرّوں کا جی دُکھا ہے تو آنکھیں بھر آئی ہیں
ہر غم کو تم نے حاصلِ ارماں بنا لیا
یہ جانتے ہوئے کہ محبت گناہ ہے!
(۱۹۶۷ء)
ارتکابِ جرم
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more