پہلے بھی بزمِ شوق سے ہم سرخ رُو اُٹھے |
پہلے بھی امتحانِ وفا میں شریک تھے |
پہلے بھی کوئے دوست میں دی ہیں گواہیاں |
مکھڑوں کی چاندنی سے مٹائیں سیاہیاں |
خاکِ چمن کو نذر کیے مامتا کے پھول |
افشاں بنائی عرصۂ مہر و وفا کی دُھول |
ہر پھول ، ہر کلی کو زباں بخشتے رہے |
حسنِ عذارِ لالہ رُخاں بخشتے رہے |
رنگِ شفق کو حل کیا رنگِ حنا کے ساتھ |
ڈولے قدم سحر کے تو تھاما تھا ہم نے ہاتھ |
کتنے نجوم سوئے تو جاگا تھا آفتاب |
ڈوبے تھے کتنے چاند تو اُبھرا تھا آفتاب |
پہلے بھی امتحانِ وفا میں شریک تھے |
پہلے بھی بزمِ شوق سے ہم سرخ رُو اُٹھے |
اور اس سے پہلے دجلہ و کوفہ گواہ ہیں |
اُٹھے جو اہلِ درد تو پھر بے پناہ ہیں |
پھر آج گھر کے آئی ہیں باطل کی آندھیاں |
پھر اپنے آشیاں پہ کڑکتی ہیں بجلیاں |
پھر آج آزمائشِ ہمت ہے دوستو |
پھر امتحانِ جذبۂ غیرت ہے دوستو |
کس کا نصیب تاجِ شہادت ہے دوستو |
کس کس کے نام نامۂ اُلفت ہے دوستو |
کرنا ہیں پھر سے عام سحر کی شہابیاں |
خونِ جگر سے بھر کے لنڈھا دو گلابیاں |
سنولا گیا بہار کا مکھڑا سنوار دیں |
آنچل گلوں کے سرخیِ خوں سے نکھار دیں |
پھر امتحانِ صبر و رضا و وفا ہے آج |
پھر خیر و شر میں معرکہ ٔ کربلا ہے آج |
(۱۹۶۵ء) |
پہلے بھی بزمِ شوق سے ہم سرخ رُو اُٹھے |
پہلے بھی امتحانِ وفا میں شریک تھے |
پہلے بھی کوئے دوست میں دی ہیں گواہیاں |
مکھڑوں کی چاندنی سے مٹائیں سیاہیاں |
خاکِ چمن کو نذر کیے مامتا کے پھول |
افشاں بنائی عرصۂ مہر و وفا کی دُھول |
ہر پھول ، ہر کلی کو زباں بخشتے رہے |
حسنِ عذارِ لالہ رُخاں بخشتے رہے |
رنگِ شفق کو حل کیا رنگِ حنا کے ساتھ |
ڈولے قدم سحر کے تو تھاما تھا ہم نے ہاتھ |
کتنے نجوم سوئے تو جاگا تھا آفتاب |
ڈوبے تھے کتنے چاند تو اُبھرا تھا آفتاب |
پہلے بھی امتحانِ وفا میں شریک تھے |
پہلے بھی بزمِ شوق سے ہم سرخ رُو اُٹھے |
اور اس سے پہلے دجلہ و کوفہ گواہ ہیں |
اُٹھے جو اہلِ درد تو پھر بے پناہ ہیں |
پھر آج گھر کے آئی ہیں باطل کی آندھیاں |
پھر اپنے آشیاں پہ کڑکتی ہیں بجلیاں |
پھر آج آزمائشِ ہمت ہے دوستو |
پھر امتحانِ جذبۂ غیرت ہے دوستو |
کس کا نصیب تاجِ شہادت ہے دوستو |
کس کس کے نام نامۂ اُلفت ہے دوستو |
کرنا ہیں پھر سے عام سحر کی شہابیاں |
خونِ جگر سے بھر کے لنڈھا دو گلابیاں |
سنولا گیا بہار کا مکھڑا سنوار دیں |
آنچل گلوں کے سرخیِ خوں سے نکھار دیں |
پھر امتحانِ صبر و رضا و وفا ہے آج |
پھر خیر و شر میں معرکہ ٔ کربلا ہے آج |
(۱۹۶۵ء) |