ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے

ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ، برسرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں ، لب بستہ ہیں ، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہِ شہرِ تمناّ
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
یادوں کے ، وفاؤں کے ، عقیدوں کے ، غموں کے
کام آئے جودُنیا میں تو اصنام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیر ے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا ؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
(۱۹۶۵ء)
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ، برسرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں ، لب بستہ ہیں ، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہِ شہرِ تمناّ
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
یادوں کے ، وفاؤں کے ، عقیدوں کے ، غموں کے
کام آئے جودُنیا میں تو اصنام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیر ے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا ؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
(۱۹۶۵ء)
ہونٹوں  پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more