ہر انجمنِ راز سے وابستہ رہے ہیں |
بس اک دلِ ناشاد سے شرمندہ رہے ہیں |
رہنے کو تو ہم تجھ سے بھی آزردہ رہے ہیں |
صد شکر کسی لمحہ پشیماں نہ رہے ہیں |
اک پھول بھی کھلتا تو مہکتے یہ دل و جاں |
بے مائگیِ شوق پہ آزردہ رہے ہیں |
پھولوں کی طرح چاک گریباں نہیں شیوہ |
غنچے کی صفت بزم میں لب بستہ رہے ہیں |
اک لمحۂ نا چیز و گریزاں کے فسانے |
تاریخ کے اوراق پہ تابندہ رہے ہیں |
لکھے گئے حالاتِ جنوں روز ازل سے |
حالاتِ جنوں آج بھی ناگفتہ رہے ہیں |
کیوں کر کہیں ہم پر نہ تھے الطافِ محبت |
الطافِ محبت تھے کہ افسردہ رہے ہیں |
کمھلائے کوئی پھول تو آنچ آتی ہے دل پر |
کس جذبۂ بے نام سے وابستہ رہے ہیں |
ہم قطرۂ نیساں ، نہ گہر پارۂ شبنم |
کیوں تشنگیِ خار پہ شرمندہ رہے ہیں |
(۱۹۶۵ء) |
ہر انجمنِ راز سے وابستہ رہے ہیں |
بس اک دلِ ناشاد سے شرمندہ رہے ہیں |
رہنے کو تو ہم تجھ سے بھی آزردہ رہے ہیں |
صد شکر کسی لمحہ پشیماں نہ رہے ہیں |
اک پھول بھی کھلتا تو مہکتے یہ دل و جاں |
بے مائگیِ شوق پہ آزردہ رہے ہیں |
پھولوں کی طرح چاک گریباں نہیں شیوہ |
غنچے کی صفت بزم میں لب بستہ رہے ہیں |
اک لمحۂ نا چیز و گریزاں کے فسانے |
تاریخ کے اوراق پہ تابندہ رہے ہیں |
لکھے گئے حالاتِ جنوں روز ازل سے |
حالاتِ جنوں آج بھی ناگفتہ رہے ہیں |
کیوں کر کہیں ہم پر نہ تھے الطافِ محبت |
الطافِ محبت تھے کہ افسردہ رہے ہیں |
کمھلائے کوئی پھول تو آنچ آتی ہے دل پر |
کس جذبۂ بے نام سے وابستہ رہے ہیں |
ہم قطرۂ نیساں ، نہ گہر پارۂ شبنم |
کیوں تشنگیِ خار پہ شرمندہ رہے ہیں |
(۱۹۶۵ء) |