گھبرا کے ترا غم بھی ہمیں چھوڑ نہ جائے |
اس راہ میں بن جاتے ہیں اپنے بھی پرائے |
دل نے غم ِ دوراں کے بڑے ہاتھ بٹائے |
ہم ترک ِ تمنا سے بھی آگے نکل آئے |
یہ تو نہ گلہ ہو کہ مدارات نہیں کی |
لَو اپنے چراغوں کی دلِ زار بڑھائے |
تاریکیِ دوراں میں ترے غم کے اُجالے |
تپتی ہوئی راہو ں میں تری یاد کے سائے |
ہم بھی کبھی شائستہ ٔ آداب ِ وفا تھے |
جینے کے ہمیں طور زمانے نے سکھائے |
پہنائیِ جاں سے ابھی واقف نہیں شاید |
کہہ دو غمِ دوراں سے نگاہیں نہ چرائے |
کس منزلِ بے نام میں دل چھوڑ چلا ہے |
اب ہم سفرو! کون ہے جو راہ دکھائے |
صدیوں کے اندھیرے میں ہے وہ راہِ درخشاں |
جس راہ سے اہلِ دل و اہلِ نظر آئے |
(۱۹۶۵ء) |
گھبرا کے ترا غم بھی ہمیں چھوڑ نہ جائے |
اس راہ میں بن جاتے ہیں اپنے بھی پرائے |
دل نے غم ِ دوراں کے بڑے ہاتھ بٹائے |
ہم ترک ِ تمنا سے بھی آگے نکل آئے |
یہ تو نہ گلہ ہو کہ مدارات نہیں کی |
لَو اپنے چراغوں کی دلِ زار بڑھائے |
تاریکیِ دوراں میں ترے غم کے اُجالے |
تپتی ہوئی راہو ں میں تری یاد کے سائے |
ہم بھی کبھی شائستہ ٔ آداب ِ وفا تھے |
جینے کے ہمیں طور زمانے نے سکھائے |
پہنائیِ جاں سے ابھی واقف نہیں شاید |
کہہ دو غمِ دوراں سے نگاہیں نہ چرائے |
کس منزلِ بے نام میں دل چھوڑ چلا ہے |
اب ہم سفرو! کون ہے جو راہ دکھائے |
صدیوں کے اندھیرے میں ہے وہ راہِ درخشاں |
جس راہ سے اہلِ دل و اہلِ نظر آئے |
(۱۹۶۵ء) |