دل زدوں کے بس میں کیا تھا بے بسی بڑھتی گئی |
بے رُخی بڑھتی رہی ، وابستگی بڑھتی گئی |
دل کے چھالے پھوٹ جائیں مندمل ہوتے نہیں |
منزلیں ہٹتی گئیں ، وابستگی بڑھتی گئی |
اُلجھنیں سی اُلجھنیں ہیں زندگی میں ہر نفس |
ہر نفس اس زلف کی ژولیدگی بڑھتی گئی |
اک تبسم ، اک کلی کافی تھی ساری عمر کو |
کیا کریں ہر گھونٹ اپنی تشنگی بڑھتی گئی |
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا |
اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑھتی گئی |
ہاتھ میں جو شمع تھی گھٹتی گئی ، گھلتی رہی |
نقشِ پائے رہرواں کی روشنی بڑھتی گئی |
سرکشی کا بھی نتیجہ چلتے چلتے دیکھ لیں |
جتنا جتنا سر جھکایا ، بے رُخی بڑھتی گئی |
ارتباطِ نور و ظلمت سے مفر ممکن نہ تھا |
روشنی گلیوں میں ، دل میں تیرگی بڑھتی گئی |
چند لمحوں کے لیے ہم دل کو بھولے تھے اداؔ |
کیا کہیں پھر لذتِ بے چارگی بڑھتی گئی |
(۱۹۶۵ء) |
دل زدوں کے بس میں کیا تھا بے بسی بڑھتی گئی |
بے رُخی بڑھتی رہی ، وابستگی بڑھتی گئی |
دل کے چھالے پھوٹ جائیں مندمل ہوتے نہیں |
منزلیں ہٹتی گئیں ، وابستگی بڑھتی گئی |
اُلجھنیں سی اُلجھنیں ہیں زندگی میں ہر نفس |
ہر نفس اس زلف کی ژولیدگی بڑھتی گئی |
اک تبسم ، اک کلی کافی تھی ساری عمر کو |
کیا کریں ہر گھونٹ اپنی تشنگی بڑھتی گئی |
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا |
اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑھتی گئی |
ہاتھ میں جو شمع تھی گھٹتی گئی ، گھلتی رہی |
نقشِ پائے رہرواں کی روشنی بڑھتی گئی |
سرکشی کا بھی نتیجہ چلتے چلتے دیکھ لیں |
جتنا جتنا سر جھکایا ، بے رُخی بڑھتی گئی |
ارتباطِ نور و ظلمت سے مفر ممکن نہ تھا |
روشنی گلیوں میں ، دل میں تیرگی بڑھتی گئی |
چند لمحوں کے لیے ہم دل کو بھولے تھے اداؔ |
کیا کہیں پھر لذتِ بے چارگی بڑھتی گئی |
(۱۹۶۵ء) |