دل کو ارماں کہ تہی دست نہ رہ جائے کوئی

دل کو ارماں کہ تہی دست نہ رہ جائے کوئی
اور آنسو وہ خزینہ کہ لٹائے نہ بنے
جو چٹانوں کو ہٹا دیتے ہیں ان لوگوں سے
نکہت و رنگ کی دیوار گرائے نہ بنے
ہو کے گھائل جو کلیجے کو ڈسا کرتی ہے
یہی اُمید وہ کعبہ ہے کہ ڈھائے نہ بنے
آندھیوں پر نہیں موقوف کہ سوکھے پتے
بوجھ شاخوں پہ کچھ ایسا کہ اُٹھائے نہ بنے
تم شکایت کے کھلونوں سے بہل جاتے ہو
دل وہ ضدی کہ خفا ہو تو منائے نہ بنے
(۱۹۶۷ء)
دل کو ارماں کہ تہی دست نہ رہ جائے کوئی
اور آنسو وہ خزینہ کہ لٹائے نہ بنے
جو چٹانوں کو ہٹا دیتے ہیں ان لوگوں سے
نکہت و رنگ کی دیوار گرائے نہ بنے
ہو کے گھائل جو کلیجے کو ڈسا کرتی ہے
یہی اُمید وہ کعبہ ہے کہ ڈھائے نہ بنے
آندھیوں پر نہیں موقوف کہ سوکھے پتے
بوجھ شاخوں پہ کچھ ایسا کہ اُٹھائے نہ بنے
تم شکایت کے کھلونوں سے بہل جاتے ہو
دل وہ ضدی کہ خفا ہو تو منائے نہ بنے
(۱۹۶۷ء)
دل کو ارماں کہ تہی دست نہ رہ جائے کوئی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more