دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے

دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے
بن جاتی ہے جی پر ، تو گزر جاتے ہیں جی سے
جھوٹوں کبھی پوچھا ہے تو وہم آئے ہیں کیا کیا
مانوس ہیں اتنے تری بیگانہ روی سے
پلکوں کی گھٹاؤں سے برستے رہے نغمے
کس طرح شکایت ہو تری کم نہگی سے
رستہ جسے مل جائے ، یہ توفیق ہے اس کی
پلٹا نہیں اب تک تو کوئی تیری گلی سے
تاریک ہوں راہیں تو ضیا دیتے ہیں تارے
خورشید بنے اپنے کنول تیرہ شمی سے
خوشبوئے بہاراں کی سنی چاپ کسی نے
مایوس نہ ہونا مری آہستہ روی سے
بن بن ک بگڑتے رہے اُمید کے پیکر
آزر تھے مگر کام رہا بت شکنی سے
چنتے رہے پلکوں سے تری راہ کے کانٹے
تعبیر کیا تو نے بھی ایذا طلبی سے
اندیشہ بس اتنا ہی رہا دشتِ طلب میں
بھر آئے کہیں آنکھ اداؔ تشنہ لبی سے
(۱۹۶۵ء)
دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے
بن جاتی ہے جی پر ، تو گزر جاتے ہیں جی سے
جھوٹوں کبھی پوچھا ہے تو وہم آئے ہیں کیا کیا
مانوس ہیں اتنے تری بیگانہ روی سے
پلکوں کی گھٹاؤں سے برستے رہے نغمے
کس طرح شکایت ہو تری کم نہگی سے
رستہ جسے مل جائے ، یہ توفیق ہے اس کی
پلٹا نہیں اب تک تو کوئی تیری گلی سے
تاریک ہوں راہیں تو ضیا دیتے ہیں تارے
خورشید بنے اپنے کنول تیرہ شمی سے
خوشبوئے بہاراں کی سنی چاپ کسی نے
مایوس نہ ہونا مری آہستہ روی سے
بن بن ک بگڑتے رہے اُمید کے پیکر
آزر تھے مگر کام رہا بت شکنی سے
چنتے رہے پلکوں سے تری راہ کے کانٹے
تعبیر کیا تو نے بھی ایذا طلبی سے
اندیشہ بس اتنا ہی رہا دشتِ طلب میں
بھر آئے کہیں آنکھ اداؔ تشنہ لبی سے
(۱۹۶۵ء)
دل اپنا جلایا ہے کسی نے بھی خوشی سے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more