ہاں سرِ راہ گزر ہم بھی تھے |
جب وہ دیوانے اِدھر سے گزرے |
وہ دوانے کہ جنھیں نازشِ دوراں کہیے |
دل نہیں، دل میں ترازو ہے جو پیکاں کہیے |
پھول ایسے جنھیں ارمانِ گلستاں کہیے |
اور جی چاہے تو ایمانِ بہاراں کہیے |
عقل و دانش سے سروکار کہاں تھا اُن کو |
جانے کیا حکم لبِ لالہ رُخاں تھا اُن کو |
اَڑ گئے تھے کہ ستاروں کی عناں تھامیں گے |
خون کو خون کہاں، رنگ ِ حنا سمجھے تھے |
جلتے بجھتے ہوئے ہم نے تو شرر سے دیکھے |
وہ تبسم، کبھی نظروں کا تصادم سمجھے |
ریگ زاروں میں نقوشِ کفِ پا ڈھونڈے ہیں |
قتل گاہوں میں خم زلفِ دوتا ڈھونڈے ہیں |
چھڑگئی بات، تو پھر بات چلی تھی جاں تک |
کون جیتا ہے حسینوں کی ”نہیں“ سے ”ہاں“ تک |
داستاں ختم ہوئی |
سوچتی ہوں کہ وہ انسان نہ تھے |
کہ دوانے تو بہر حال دوانے ٹھہرے |
وہ تو ساحر تھے کہ جس خاک پہ ہو کر گزرے |
اس بیاباں کو عطا کر گئے گلزار کا رنگ |
اس کے ذرّوں کو مہ و مہر کا رُتبہ بخشا |
اس ہوا میں دمِ طاؤس و رُباب و دف و چنگ |
ہیں عجب لوگ یہ دیوانے بھی |
مرگئے، مر کے بھی زندہ ہی رہے |
اور جیے جب تو فقط سائے تھے |
(۱۹۶۶ء) |
ہاں سرِ راہ گزر ہم بھی تھے |
جب وہ دیوانے اِدھر سے گزرے |
وہ دوانے کہ جنھیں نازشِ دوراں کہیے |
دل نہیں، دل میں ترازو ہے جو پیکاں کہیے |
پھول ایسے جنھیں ارمانِ گلستاں کہیے |
اور جی چاہے تو ایمانِ بہاراں کہیے |
عقل و دانش سے سروکار کہاں تھا اُن کو |
جانے کیا حکم لبِ لالہ رُخاں تھا اُن کو |
اَڑ گئے تھے کہ ستاروں کی عناں تھامیں گے |
خون کو خون کہاں، رنگ ِ حنا سمجھے تھے |
جلتے بجھتے ہوئے ہم نے تو شرر سے دیکھے |
وہ تبسم، کبھی نظروں کا تصادم سمجھے |
ریگ زاروں میں نقوشِ کفِ پا ڈھونڈے ہیں |
قتل گاہوں میں خم زلفِ دوتا ڈھونڈے ہیں |
چھڑگئی بات، تو پھر بات چلی تھی جاں تک |
کون جیتا ہے حسینوں کی ”نہیں“ سے ”ہاں“ تک |
داستاں ختم ہوئی |
سوچتی ہوں کہ وہ انسان نہ تھے |
کہ دوانے تو بہر حال دوانے ٹھہرے |
وہ تو ساحر تھے کہ جس خاک پہ ہو کر گزرے |
اس بیاباں کو عطا کر گئے گلزار کا رنگ |
اس کے ذرّوں کو مہ و مہر کا رُتبہ بخشا |
اس ہوا میں دمِ طاؤس و رُباب و دف و چنگ |
ہیں عجب لوگ یہ دیوانے بھی |
مرگئے، مر کے بھی زندہ ہی رہے |
اور جیے جب تو فقط سائے تھے |
(۱۹۶۶ء) |