آبلہ پاؤ! رفیقو! ٹھہرو |
آؤ صدیوں کا سفر ختم کریں |
زندگی کہتے ہیں جس بت کو اسی بت کے لیے |
زندگی بھر کہو کیا کچھ نہ کیا ہے ہم نے |
درد سا درد سہا ہے ہم نے |
سنگ ریزوں سے چٹانوں سے محبت کی ہے |
وہم پوجا ہے، گمانوں کی عبادت کی ہے |
کتنی معصوم سی خواہش تھی کہ اس دُنیا میں |
تھام کر ہاتھ کسی لمحے کا ہم بھی چلتے |
اپنی راہیں بھی ستاروں سے منور ہوتیں |
اپنے (مرقد پہ نہیں) گھر میں دیے بھی جلتے |
الف لیلہ نہ تھی ہم کوئی شہزاد نہ تھے |
روز و شب تلخ وگراں بار حقیقت تھے یہاں |
پھر بھی گھومے ہیں طلسمات کے ویرانوں میں |
راہ میں کوہِ گراں بھی آئے |
جن کی ہیبت سے لرزتی تھی نگاہ |
ہم کو کیا خوف کہ ہم سر سے کفن باندھے تھے |
اور تپتے ہوئے وہ ریت کے چٹیل میداں |
بے اماں، ظالم و بے برگ و گیاہ |
اور کبھی گھر گئے ہم آگ کے طوفان میں |
اَن گنت شعلوں کی ڈسنے کو زبانیں لپکیں |
آگ اپنی تو نہ گلزار بنی |
منزلِ چشمہ ٔ حیواں نہ ملی |
ہاتھ خالی ہیں تمھارے، مرادامن ہے تہی |
سال ہا سال سے دُکھ درد کے ہم ہیں ساتھی |
جان پہچان مگر ہم میں نہیں |
میں تمھیں، تم نہ مجھے جان سکے |
حدیہ ہے خود کو بھی ہم لوگ نہ پہچان سکے |
کبھی غیروں سے، کبھی اپنوں سے ہم نے پوچھا |
اپنی منزل کا سراغ، اپنی اُمنگوں کا پتا |
میں نے جھنجھلا کے ہر الزام تمھی پر رکھا |
تم نے مجرم مجھے گردانا تھا |
ہم کہآوارہ و سر گشتہ و درماندہ رہے |
دل کے گنبد سے ندائیں آئیں |
اور ہم نے نہ سنیں |
ہم تھے جس جنت انساں کے لیے سرگرداں |
وہ تو ہم اپنے ہی سینوں میں لیے پھرتے ہیں |
اور وہ آب حیاتِ ابدی |
اس کا سر چشمہ ہیں آنکھیں اپنی |
کہیں بے لوث محبت، کہیں ممتا کا دیا |
اور وہ آنسو جو کسی اور کے غم میں ڈھلکا |
ہے وہی جنت انساں کا نقیب |
آبلہ پاؤ! رفیقو! آؤ |
آؤ صدیوں کا سفر ختم کریں |
(۱۹۶۶ء) |
آبلہ پاؤ! رفیقو! ٹھہرو |
آؤ صدیوں کا سفر ختم کریں |
زندگی کہتے ہیں جس بت کو اسی بت کے لیے |
زندگی بھر کہو کیا کچھ نہ کیا ہے ہم نے |
درد سا درد سہا ہے ہم نے |
سنگ ریزوں سے چٹانوں سے محبت کی ہے |
وہم پوجا ہے، گمانوں کی عبادت کی ہے |
کتنی معصوم سی خواہش تھی کہ اس دُنیا میں |
تھام کر ہاتھ کسی لمحے کا ہم بھی چلتے |
اپنی راہیں بھی ستاروں سے منور ہوتیں |
اپنے (مرقد پہ نہیں) گھر میں دیے بھی جلتے |
الف لیلہ نہ تھی ہم کوئی شہزاد نہ تھے |
روز و شب تلخ وگراں بار حقیقت تھے یہاں |
پھر بھی گھومے ہیں طلسمات کے ویرانوں میں |
راہ میں کوہِ گراں بھی آئے |
جن کی ہیبت سے لرزتی تھی نگاہ |
ہم کو کیا خوف کہ ہم سر سے کفن باندھے تھے |
اور تپتے ہوئے وہ ریت کے چٹیل میداں |
بے اماں، ظالم و بے برگ و گیاہ |
اور کبھی گھر گئے ہم آگ کے طوفان میں |
اَن گنت شعلوں کی ڈسنے کو زبانیں لپکیں |
آگ اپنی تو نہ گلزار بنی |
منزلِ چشمہ ٔ حیواں نہ ملی |
ہاتھ خالی ہیں تمھارے، مرادامن ہے تہی |
سال ہا سال سے دُکھ درد کے ہم ہیں ساتھی |
جان پہچان مگر ہم میں نہیں |
میں تمھیں، تم نہ مجھے جان سکے |
حدیہ ہے خود کو بھی ہم لوگ نہ پہچان سکے |
کبھی غیروں سے، کبھی اپنوں سے ہم نے پوچھا |
اپنی منزل کا سراغ، اپنی اُمنگوں کا پتا |
میں نے جھنجھلا کے ہر الزام تمھی پر رکھا |
تم نے مجرم مجھے گردانا تھا |
ہم کہآوارہ و سر گشتہ و درماندہ رہے |
دل کے گنبد سے ندائیں آئیں |
اور ہم نے نہ سنیں |
ہم تھے جس جنت انساں کے لیے سرگرداں |
وہ تو ہم اپنے ہی سینوں میں لیے پھرتے ہیں |
اور وہ آب حیاتِ ابدی |
اس کا سر چشمہ ہیں آنکھیں اپنی |
کہیں بے لوث محبت، کہیں ممتا کا دیا |
اور وہ آنسو جو کسی اور کے غم میں ڈھلکا |
ہے وہی جنت انساں کا نقیب |
آبلہ پاؤ! رفیقو! آؤ |
آؤ صدیوں کا سفر ختم کریں |
(۱۹۶۶ء) |