ارضِ کشمیر کی دل نشیں وادیو!
تم خزاں کا ہر اک جور سہ کر بھی پائندہ ہو
خار زاروں کے پتھراؤ سہتے ہوئے
قافلے لالہ و گل کے بڑھتے رہے
کل لہو رو رہی تھی صبا، کل گھٹاؤں کے آنچل تھے شعلہ فگن
کل تمھاری بہاروں کے پیغام بر، لالہ و گل تھے خونیں کفن
کل زمین و زماں کے حسیں خواب لوٹے گئے
کل مری رفعتوں کے امیں، میرے خورشید و مہتاب لوٹے گئے
امن، انسانیت اور تہذیب کا پاسباں
وہ نگار ِحسیں، وہ نگارِ جواں
موت سے زندگی مانگنے چل دیا
دل نے سمجھا کہ اب ختم ہے داستاں
اے حسیں اور اندوہ گیں وادیو!
داستاں ظلم کی ختم ہوتی نہیں
داغ دل کے کوئی آنکھ دھوتی نہیں
وقت کے تیز دھارے کا رُخ موڑ کر
تم کو ہونا ہے تابندہ، پائندہ تر
ظلم تھا کل بھی خوار و زبوں
ظلم اور جبر ہو گا ہمیشہ نگوں
تم جواں ہو تو دل بھی جواں ہے ابھی
داستانِ سلف حرز جاں ہے ابھی
حرفِ قرآں ہے سرمایۂ زندگی
پاسباں تھا جو کل، پاسباں ہے ابھی
  ارضِ کشمیر کی دل نشیں وادیو!
  اے حسیں اور اندوہ گیں وادیو!
(۱۹۶۶ء)
ارضِ کشمیر کی دل نشیں وادیو!
تم خزاں کا ہر اک جور سہ کر بھی پائندہ ہو
خار زاروں کے پتھراؤ سہتے ہوئے
قافلے لالہ و گل کے بڑھتے رہے
کل لہو رو رہی تھی صبا، کل گھٹاؤں کے آنچل تھے شعلہ فگن
کل تمھاری بہاروں کے پیغام بر، لالہ و گل تھے خونیں کفن
کل زمین و زماں کے حسیں خواب لوٹے گئے
کل مری رفعتوں کے امیں، میرے خورشید و مہتاب لوٹے گئے
امن، انسانیت اور تہذیب کا پاسباں
وہ نگار ِحسیں، وہ نگارِ جواں
موت سے زندگی مانگنے چل دیا
دل نے سمجھا کہ اب ختم ہے داستاں
اے حسیں اور اندوہ گیں وادیو!
داستاں ظلم کی ختم ہوتی نہیں
داغ دل کے کوئی آنکھ دھوتی نہیں
وقت کے تیز دھارے کا رُخ موڑ کر
تم کو ہونا ہے تابندہ، پائندہ تر
ظلم تھا کل بھی خوار و زبوں
ظلم اور جبر ہو گا ہمیشہ نگوں
تم جواں ہو تو دل بھی جواں ہے ابھی
داستانِ سلف حرز جاں ہے ابھی
حرفِ قرآں ہے سرمایۂ زندگی
پاسباں تھا جو کل، پاسباں ہے ابھی
ارضِ کشمیر کی دل نشیں وادیو!
اے حسیں اور اندوہ گیں وادیو!
(۱۹۶۶ء)
اندوہ گیں وادیو!
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more