ساحلِ بحر پہ تنہا بھی ہوں آزردہ بھی
(کس قدر خوش ہوں کہ ہو جاتی ہوں افسردہ بھی)
یوں نہیں تھا کہ مجھے رہ میں اُجالا نہ ملا
کیسے کہہ دوں کہ محبت کو سہارا نہ ملا
وہ جزیرے جو تمھیں دُور نظر آتے ہیں
جو ہمہ رنگ ، ہمہ نور نظر آتے ہیں
میرے شہ کار ، مرے خواب ، مرے ارماں ہیں
میری تشکیل کی کرنیں ہیں کہ تاب افشاں ہیں
میں جو کردار بھی ہوں ، خالقِ افسانہ بھی
آج اپنے ہی خدوخال نہ پہچان سکی
برگِ گُل کی وہ فصیلیں ہیں کہ جی ہانپ گیا
رشتۂ نکہتِ گل بھی مجھے زنجیر بنا
یہ مرے دل کا حسیں خواب کہ تعبیر بنا
(۱۹۶۷ء)
ساحلِ بحر پہ تنہا بھی ہوں آزردہ بھی
(کس قدر خوش ہوں کہ ہو جاتی ہوں افسردہ بھی)
یوں نہیں تھا کہ مجھے رہ میں اُجالا نہ ملا
کیسے کہہ دوں کہ محبت کو سہارا نہ ملا
وہ جزیرے جو تمھیں دُور نظر آتے ہیں
جو ہمہ رنگ ، ہمہ نور نظر آتے ہیں
میرے شہ کار ، مرے خواب ، مرے ارماں ہیں
میری تشکیل کی کرنیں ہیں کہ تاب افشاں ہیں
میں جو کردار بھی ہوں ، خالقِ افسانہ بھی
آج اپنے ہی خدوخال نہ پہچان سکی
برگِ گُل کی وہ فصیلیں ہیں کہ جی ہانپ گیا
رشتۂ نکہتِ گل بھی مجھے زنجیر بنا
یہ مرے دل کا حسیں خواب کہ تعبیر بنا
(۱۹۶۷ء)
اجنبی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more