میں بھی تھکن سے چور ہوں ، تم بھی نڈھال ہو |
گھائل مری نگاہ ہے ، تم پائمال ہو |
چھالے تپک رہے ہیں ذرا دھیان تو بٹے |
کچھ داستانِ دل ہی کہو ، راستہ کٹے |
کیا کیا فریب کھائے ہیں پندارِ ہوش کے |
دھوکے دیے ہیں آپ دلِ نامراد کو |
کانٹوں کو تم نے تارِ گریباں سمجھ لیا |
پھولو ں کو میں نے حاصل ِ درماندگی کہا |
تم اکتساب درد کی لذت میں کھو گئے |
میں انبساطِ رنگِ گلِ تر کی ہوگئی |
اپنے دُکھو ں کا چارہ نہ گل ِ تھے نہ خار تھے |
اوروں سے اپنے گھر کا پتا پوچھتے پھرے |
گھبرا کے آرزوؤں کی شمعیں بجھائی ہیں |
کیا قہر ہے کہ خود سے بھی آنکھیں چرائی ہیں |
صحرائے درد راہ میں ہے ، مضمحل ہیں ہم |
رہبر کسے بنائیے ، گم کردہ دل ہیں ہم |
(۱۹۶۷ء) |
میں بھی تھکن سے چور ہوں ، تم بھی نڈھال ہو |
گھائل مری نگاہ ہے ، تم پائمال ہو |
چھالے تپک رہے ہیں ذرا دھیان تو بٹے |
کچھ داستانِ دل ہی کہو ، راستہ کٹے |
کیا کیا فریب کھائے ہیں پندارِ ہوش کے |
دھوکے دیے ہیں آپ دلِ نامراد کو |
کانٹوں کو تم نے تارِ گریباں سمجھ لیا |
پھولو ں کو میں نے حاصل ِ درماندگی کہا |
تم اکتساب درد کی لذت میں کھو گئے |
میں انبساطِ رنگِ گلِ تر کی ہوگئی |
اپنے دُکھو ں کا چارہ نہ گل ِ تھے نہ خار تھے |
اوروں سے اپنے گھر کا پتا پوچھتے پھرے |
گھبرا کے آرزوؤں کی شمعیں بجھائی ہیں |
کیا قہر ہے کہ خود سے بھی آنکھیں چرائی ہیں |
صحرائے درد راہ میں ہے ، مضمحل ہیں ہم |
رہبر کسے بنائیے ، گم کردہ دل ہیں ہم |
(۱۹۶۷ء) |