دیکھ تو سرمئی آکاش پہ تاروں کا نکھار
رات کی دیوی کے ماتھے پہ چنی ہے افشاں
یا کچھ اشکوں کے چراغ
ہیں کسی راہ گزر میں لرزاں
آہ یہ سر مئی آکاش، یہ تاروں کے شرار!
یہ مرے دل کو خیال آتا ہے
دم اندھیرے میں گھٹاجاتا ہے
کیوں نہ ایوانِ تصور میں جلالوں شمعیں
بربط و چنگ ورباب
منتظر ہیں مرے مضراب کی اک جنبش کے
زندگی کیو ں فقط اک آہ مسلسل ہی رہے
کیوں نہ بیدارکروں وہ نغمے
وقت بھی سن کے جنھیں تھم جائے
رہ گزاروں میں یہ بہتا ہوا خوں
موت کے سائے تلے سسکیاں بھرتی ہے حیات
اس اُمنڈتے ہوئے طوفاں سے کنارا کرلوں!
یہ سسکتی ہوئی لاشیں ، یہ حیاتِ مُردہ
یہ جبینیں جنھیں سجدوں سے نہیں ہے فرصت
یہ اُمنگیں جنھیں فاقوں نے کچل ڈالا ہے
یہ بلکتی ہوئی روحیں، یہ تڑپتے ہوئے دل
یہ ترستی ہوئی نظریں ، یہ ڈھلکتے ہوئے اشک
ان ڈھلکتے ہوئے اشکوں کو چُرا کرمیں بھی
اپنے ایوانِ تصور میں چراغاں کر لوں!
دیکھ کر رات کی دیوی کا سنگھار
وہم آتا ہے مگر
نغمہ ونے کا سہارالے کر
زندگی چل بھی سکے گی کہ نہیں
ان ستاروں کی دمکتی ہوئی قندیلوں سے
رات کے دل کی سیاہی بھی مٹے گی کہ نہیں!
دیکھ تو سرمئی آکاش پہ تاروں کا نکھار
رات کی دیوی کے ماتھے پہ چنی ہے افشاں
یا کچھ اشکوں کے چراغ
ہیں کسی راہ گزر میں لرزاں
آہ یہ سر مئی آکاش، یہ تاروں کے شرار!
یہ مرے دل کو خیال آتا ہے
دم اندھیرے میں گھٹاجاتا ہے
کیوں نہ ایوانِ تصور میں جلالوں شمعیں
بربط و چنگ ورباب
منتظر ہیں مرے مضراب کی اک جنبش کے
زندگی کیو ں فقط اک آہ مسلسل ہی رہے
کیوں نہ بیدارکروں وہ نغمے
وقت بھی سن کے جنھیں تھم جائے
رہ گزاروں میں یہ بہتا ہوا خوں
موت کے سائے تلے سسکیاں بھرتی ہے حیات
اس اُمنڈتے ہوئے طوفاں سے کنارا کرلوں!
یہ سسکتی ہوئی لاشیں ، یہ حیاتِ مُردہ
یہ جبینیں جنھیں سجدوں سے نہیں ہے فرصت
یہ اُمنگیں جنھیں فاقوں نے کچل ڈالا ہے
یہ بلکتی ہوئی روحیں، یہ تڑپتے ہوئے دل
یہ ترستی ہوئی نظریں ، یہ ڈھلکتے ہوئے اشک
ان ڈھلکتے ہوئے اشکوں کو چُرا کرمیں بھی
اپنے ایوانِ تصور میں چراغاں کر لوں!
دیکھ کر رات کی دیوی کا سنگھار
وہم آتا ہے مگر
نغمہ ونے کا سہارالے کر
زندگی چل بھی سکے گی کہ نہیں
ان ستاروں کی دمکتی ہوئی قندیلوں سے
رات کے دل کی سیاہی بھی مٹے گی کہ نہیں!
یہ مرے دل کو خیال آتا ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more