مژدہ نگاہ شوق! کہ عیدِ نظارہ ہے
پلکیں کسی کی راہ گزر میں بچھاؤں میں
آمد ہے آج ایک سراپا بہار کی
کس کس طرح نہ غم کدہ اپنا سجاؤں میں
خورشید کی جبیں سے کرن مستعار لوں
مہتاب سے ضیائے جواں مانگ لاؤں میں
دامانِ ابر تیرہ سے گوہر سمیٹ لوں
قوسِ قزح کا رنگِ عروسی رچاؤں میں
باغِ ارم سے آرزوئے رنگ و بو کروں
روئے شفق سے غازۂ احمر چھڑاؤں میں
شبنم سے اشک ہائے گہر تاب چھین لوں
غنچے کے لعلِ لب سے تبسم چراؤں میں!
بُلبل سے پاک بازی اُلفت طلب کروں
معصومیِ شباب کو پھولوں سے چھاؤں میں!
جذب و وفا و ہمتِ پروانہ چاہیے
بہرگداز و سوز سوئے شمع جاؤں میں
رنگینیاں شراب سے تھوڑی سی مانگ لوں
اور سادگی ِ طفلکِ معصوم پاؤں میں
ظلمت میں ہو گا نور فشاں ماہِ نیم ماہ
بہر نثار ساغرِ انجم منگاؤں میں
وہ اور میرے گھر میں ہوں مہماں خوشا نصیب
گل ہائے اشکِ سرخ سے دیپک جلاؤں میں
آنکھوں کو میری د ولتِ دیدار ہے نصیب
خود کو نہ اُن کے شوق میں کیوں بھول جاؤں میں
وہ ابتدا سے آج سنیں گے حدیثِ غم
بلبل کی طرز نغمئہ رنگیں اُڑاؤں میں
جب حسن ہی نیاز پہ مائل ہو اے ندیم
پھر کیا صلاح آج نہ کیوں روٹھ جاؤں میں
اے اضطرابِ شوق! سنبھلنے دے اس قدر
ہاتھوں پہ رکھ کے دل کو پئے نذر لاؤں میں
اوراس کے بعد عرض کروں حکم ہو اگر
رنگین ایک مطلع اداؔ کا سناؤں میں
”اے چشم ِمست تیرا اشارہ جو پاؤں میں
جو نغمے سو رہے ہیں انھیں بھی جگاؤں میں“
مژدہ نگاہ شوق! کہ عیدِ نظارہ ہے
پلکیں کسی کی راہ گزر میں بچھاؤں میں
آمد ہے آج ایک سراپا بہار کی
کس کس طرح نہ غم کدہ اپنا سجاؤں میں
خورشید کی جبیں سے کرن مستعار لوں
مہتاب سے ضیائے جواں مانگ لاؤں میں
دامانِ ابر تیرہ سے گوہر سمیٹ لوں
قوسِ قزح کا رنگِ عروسی رچاؤں میں
باغِ ارم سے آرزوئے رنگ و بو کروں
روئے شفق سے غازۂ احمر چھڑاؤں میں
شبنم سے اشک ہائے گہر تاب چھین لوں
غنچے کے لعلِ لب سے تبسم چراؤں میں!
بُلبل سے پاک بازی اُلفت طلب کروں
معصومیِ شباب کو پھولوں سے چھاؤں میں!
جذب و وفا و ہمتِ پروانہ چاہیے
بہرگداز و سوز سوئے شمع جاؤں میں
رنگینیاں شراب سے تھوڑی سی مانگ لوں
اور سادگی ِ طفلکِ معصوم پاؤں میں
ظلمت میں ہو گا نور فشاں ماہِ نیم ماہ
بہر نثار ساغرِ انجم منگاؤں میں
وہ اور میرے گھر میں ہوں مہماں خوشا نصیب
گل ہائے اشکِ سرخ سے دیپک جلاؤں میں
آنکھوں کو میری د ولتِ دیدار ہے نصیب
خود کو نہ اُن کے شوق میں کیوں بھول جاؤں میں
وہ ابتدا سے آج سنیں گے حدیثِ غم
بلبل کی طرز نغمئہ رنگیں اُڑاؤں میں
جب حسن ہی نیاز پہ مائل ہو اے ندیم
پھر کیا صلاح آج نہ کیوں روٹھ جاؤں میں
اے اضطرابِ شوق! سنبھلنے دے اس قدر
ہاتھوں پہ رکھ کے دل کو پئے نذر لاؤں میں
اوراس کے بعد عرض کروں حکم ہو اگر
رنگین ایک مطلع اداؔ کا سناؤں میں
”اے چشم ِمست تیرا اشارہ جو پاؤں میں
جو نغمے سو رہے ہیں انھیں بھی جگاؤں میں“
 عیدِ نظّارہ
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more