گھونگھٹ اُلٹ رہی ہے رُخ لالہ فام سے |
عذرائے صبح حسنِ خود آرا لیے ہوئے |
سر گرم مشقِ ناز ہے مشّاطۂ بہار |
کیف و نشاط و رنگ کی دُنیا لیے ہوئے |
کلیوں کو بخشتی ہوئی اذنِ شگفتگی |
پھولوں کو رنگ و بو کا سندیسہ لیے ہوئے |
دامن کشاں ہے ساحلِ گنگا کی آب و تاب |
طغیانِ بے خودی کا اشارہ لیے ہوئے |
ہیں گل فروش لڑکیاں ہر سمت راہ میں |
یا خود بہار ہے گلِ رعنا لیے ہوئے |
خوش بو مچل رہی ہے ہواؤں کے دوش پر |
اعجاز گرمیِ دمِ عیسٰیلیے ہوئے |
مستی بھری ہواؤں کے جھونکے، نہ پوچھپے |
فطرت ہے آج ساغر ومینا لیے ہوئے |
ہو جس کے آگے نغمئہ ناہید بھی خجل |
موجِ نسیم ہے وہ ترانا لیے ہوئے |
مغرور کر دیا ہے شعاعوں نے چوم کر |
ذرّے بھی ہیں فروغِ ثریا لیے ہوئے |
ہر گل، ز فیض ناز، چمن درکنار ہے |
ہر قطرئہ حقیر ہے دریا لیے ہوئے |
شفّاف سطحِ آب نہیں ، دستِ ناز میں |
ِآئینہ ہے عروسِ نظارہ لیے ہوئے |
محو ِ خرام ناز ہیں دریا میں کشتیاں |
موجِ شمیم گل کا فسانہ لیے ہوئے |
مندرکی آن بان ہے اس وقت دیدنی |
کرنیں بڑھی ہیں تاجِ شہانہ لیے ہوئے |
اشنان کرنے گھاٹ پر آئی ہیں دیویاں |
آنچل کی اوٹ میںرُخِ زیبا لیے ہوئے |
آغوشِ رودِ آب میں ہیں مہ و شانِ شوخ |
گویا جواب ِ عقدِ ثریا لیے ہوئے |
یا صحنِ گلستاں میں پرافشاں ہیں تتلیاں |
عکسِ جمالِ عارضِ سلمٰی لیے ہوئے |
یا کچھ کنول کھلے ہوئے چاندی کی جھیل میں |
نظارہ و نظر کا تقاضا لیے ہوئے |
وہ سر جھکا رہی ہیںعقیدت کی راہ سے |
کونین خود ہے جن کی تمنا لیے ہوئے |
مہتاب سی جبیں سے کرنِ پھوٹتی ہوئی |
دُنیائے آرزو کا اُجالا لیے ہوئے |
ژولیدہ گیسوؤں میں ہے مکھڑا یہ پھول سا |
یا گود میں ہے چاند کو ہالا لیے ہوئے |
مے خانئہ جمال کی کافر گھٹاؤں میں |
طاقِ حرم کی شمع دل آرا لیے ہوئے |
سامانِ کفرِ عشق مہیا ہیں سر بہ سر |
ہر ہر قدم پہ دعوتِ سجدہ لیے ہوئے |
ساحل کے ذرّے ذرّے میں غلطیدہ ہے نظر |
ارمانِ دید و ذوقِ تماشا لیے ہوئے |
سجدے تڑپ رہے ہیں جبینِ نیاز میں |
سر ہیں کسی کی زلف کا سودا لیے ہوئے |
ہیں دل کے ہاتھوں جینے سے بے زاریاں وہاں |
یا ہر ادا ہے وعدئہ فردا لیے ہوئے |
تسکین نا مراد کی اک سمت کش مکش |
اور اک طرف ہے درد مداوا لیے ہوئے |
کس کو خبر ہیں کتنے بہکتے ہوئے قدم |
مخمور انکھڑیوں کا سہارا لیے ہوئے |
گھونگھٹ اُلٹ رہی ہے رُخ لالہ فام سے |
عذرائے صبح حسنِ خود آرا لیے ہوئے |
سر گرم مشقِ ناز ہے مشّاطۂ بہار |
کیف و نشاط و رنگ کی دُنیا لیے ہوئے |
کلیوں کو بخشتی ہوئی اذنِ شگفتگی |
پھولوں کو رنگ و بو کا سندیسہ لیے ہوئے |
دامن کشاں ہے ساحلِ گنگا کی آب و تاب |
طغیانِ بے خودی کا اشارہ لیے ہوئے |
ہیں گل فروش لڑکیاں ہر سمت راہ میں |
یا خود بہار ہے گلِ رعنا لیے ہوئے |
خوش بو مچل رہی ہے ہواؤں کے دوش پر |
اعجاز گرمیِ دمِ عیسٰیلیے ہوئے |
مستی بھری ہواؤں کے جھونکے، نہ پوچھپے |
فطرت ہے آج ساغر ومینا لیے ہوئے |
ہو جس کے آگے نغمئہ ناہید بھی خجل |
موجِ نسیم ہے وہ ترانا لیے ہوئے |
مغرور کر دیا ہے شعاعوں نے چوم کر |
ذرّے بھی ہیں فروغِ ثریا لیے ہوئے |
ہر گل، ز فیض ناز، چمن درکنار ہے |
ہر قطرئہ حقیر ہے دریا لیے ہوئے |
شفّاف سطحِ آب نہیں ، دستِ ناز میں |
ِآئینہ ہے عروسِ نظارہ لیے ہوئے |
محو ِ خرام ناز ہیں دریا میں کشتیاں |
موجِ شمیم گل کا فسانہ لیے ہوئے |
مندرکی آن بان ہے اس وقت دیدنی |
کرنیں بڑھی ہیں تاجِ شہانہ لیے ہوئے |
اشنان کرنے گھاٹ پر آئی ہیں دیویاں |
آنچل کی اوٹ میںرُخِ زیبا لیے ہوئے |
آغوشِ رودِ آب میں ہیں مہ و شانِ شوخ |
گویا جواب ِ عقدِ ثریا لیے ہوئے |
یا صحنِ گلستاں میں پرافشاں ہیں تتلیاں |
عکسِ جمالِ عارضِ سلمٰی لیے ہوئے |
یا کچھ کنول کھلے ہوئے چاندی کی جھیل میں |
نظارہ و نظر کا تقاضا لیے ہوئے |
وہ سر جھکا رہی ہیںعقیدت کی راہ سے |
کونین خود ہے جن کی تمنا لیے ہوئے |
مہتاب سی جبیں سے کرنِ پھوٹتی ہوئی |
دُنیائے آرزو کا اُجالا لیے ہوئے |
ژولیدہ گیسوؤں میں ہے مکھڑا یہ پھول سا |
یا گود میں ہے چاند کو ہالا لیے ہوئے |
مے خانئہ جمال کی کافر گھٹاؤں میں |
طاقِ حرم کی شمع دل آرا لیے ہوئے |
سامانِ کفرِ عشق مہیا ہیں سر بہ سر |
ہر ہر قدم پہ دعوتِ سجدہ لیے ہوئے |
ساحل کے ذرّے ذرّے میں غلطیدہ ہے نظر |
ارمانِ دید و ذوقِ تماشا لیے ہوئے |
سجدے تڑپ رہے ہیں جبینِ نیاز میں |
سر ہیں کسی کی زلف کا سودا لیے ہوئے |
ہیں دل کے ہاتھوں جینے سے بے زاریاں وہاں |
یا ہر ادا ہے وعدئہ فردا لیے ہوئے |
تسکین نا مراد کی اک سمت کش مکش |
اور اک طرف ہے درد مداوا لیے ہوئے |
کس کو خبر ہیں کتنے بہکتے ہوئے قدم |
مخمور انکھڑیوں کا سہارا لیے ہوئے |