اُفق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں میں
فسوں بدوش نظارے بلا رہے ہیں مجھے
یہ زندگی کہ شکست دوام کہیے جسے
طلسم ِبندگیِ صبح و شام کہیے جسے
وفورِ یاس سے سہمی ہوئی، لجائی ہوئی
رُخِ اُمید پہ یہ بیوگی سی چھائی ہوئی
یہ اختیار پہ رسم ورواج کے پہرے
نگاہِ شوخ پہ ظالم سماج کے پہرے
یہ احتیاج کے پھندے میں آرزو کا گلا
یہ مردہ ہاتھوں میں بے باک زندگی کا عصا
قدم قدم پہ سسکتی ہیں اَن گنت لاشیں
کہبک رہی ہیں سر راہ رُوح کی قاشیں
یہ رہ گزر مرے پائے جنوں کو راس نہیں
یہ تیرگی مری تعمیر کی اساس نہیں
اُفق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں میں
جہاں بہشت بھی جچتی نہیں نگاہوں میں
جہاں رواج کی زنجیر کہنہ لگتی ہے
جہاں یقین کے سانچے میں آہ ڈھلتی ہے
خود آگہی کے طریقے سکھائے جاتے ہیں
نگاہ عجز کو نشتر تھمائے جاتے ہیں!
جہاں سلگتے ہوئے کم نصیب اشکوں سے
چراغِ عشرتِ مغرور جل نہیں سکتے
وہیں لطیف بہار آفریں پناہوں میں
حیات نو کے اشارے بلا رہے ہیں مجھے
اُفق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں میں
فسوں بدوش نظارے بلا رہے ہیں مجھے
یہ زندگی کہ شکست دوام کہیے جسے
طلسم ِبندگیِ صبح و شام کہیے جسے
وفورِ یاس سے سہمی ہوئی، لجائی ہوئی
رُخِ اُمید پہ یہ بیوگی سی چھائی ہوئی
یہ اختیار پہ رسم ورواج کے پہرے
نگاہِ شوخ پہ ظالم سماج کے پہرے
یہ احتیاج کے پھندے میں آرزو کا گلا
یہ مردہ ہاتھوں میں بے باک زندگی کا عصا
قدم قدم پہ سسکتی ہیں اَن گنت لاشیں
کہبک رہی ہیں سر راہ رُوح کی قاشیں
یہ رہ گزر مرے پائے جنوں کو راس نہیں
یہ تیرگی مری تعمیر کی اساس نہیں
اُفق کے پار ستاروں کی خواب گاہوں میں
جہاں بہشت بھی جچتی نہیں نگاہوں میں
جہاں رواج کی زنجیر کہنہ لگتی ہے
جہاں یقین کے سانچے میں آہ ڈھلتی ہے
خود آگہی کے طریقے سکھائے جاتے ہیں
نگاہ عجز کو نشتر تھمائے جاتے ہیں!
جہاں سلگتے ہوئے کم نصیب اشکوں سے
چراغِ عشرتِ مغرور جل نہیں سکتے
وہیں لطیف بہار آفریں پناہوں میں
حیات نو کے اشارے بلا رہے ہیں مجھے
اُفق کے پار
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more