|
|
میں نے گُل ریز بہاروں کی تمناّ کی تھی | |
مجھے افسردہ نگاہوں کے سوا کچھ نہ ملا |
چند سہمی ہوئی آہوں کے سوا کچھ نہ ملا |
| جگمگاتے ہوئے تاروں کی تمناّ کی تھی |
|
میں نے موہوم اُمیدوں کی پناہیں ڈھونڈیں | |
شدتِ یاس میں مبہم سا اشارہ نہ ملا |
ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا نہ ملا |
| ہائے کس دشتِ بلا خیز میں راہیں ڈھونڈیں |
|
اب فسوںساز بہاروں سے مجھے کیا مطلب | |
آج ہیں میری نگاہوں میں وہ منظر توبہ |
میں نے دیکھے ہیں لپکتے ہوئے نشتر توبہ |
| خلد بردوش نظاروں سے مجھے کیا مطلب |
|
آسماں نور کے نغمات سے معمور سہی | |
میں نے گھٹتی ہوئی چیخوں کے سنے ہیں نوحے |
ہائے وہ اشک جو پلکوں سے ڈھلک بھی نہ سکے |
| زندگی حسن و جوانی سے ابھی چُور سہی |
|
کبھی ضوپاش ستاروں کی تمناّ تھی مجھے | |
آج ذرّوں کو بھی مقصود بنا رکھا ہے |
آج کانٹوں کو کلیجے سے لگا رکھا ہے |
| کبھی گل ریز بہاروں کی تمناّ تھی مجھے |