میں نے پیمانِ وفا باندھ لیا
ان چھنکتی ہوئی زنجیروں سے
جن کے سائے سے بھی ہے عار مجھے
زندگی چین بھرا خواب نہ تھی
بسترِ مخمل و سنجاب نہ تھی
ساغرِ ناب نہیں، بادۂ انگور نہیں
لبِ جاں بخش نہیں، نرگسِ مخمور نہیں
میرا سرمایہ یہ زنجیریں تھیں
اپنے اجداد کی میراث سمجھ کر ہمدم
اِن چھنکتی ہوئی زنجیروں سے
میں نے پیمانِ وفا باندھ لیا
میرا یہ کلبۂ تاریک — اُداس
یہ عفونت زدہ پُر ہول فضا
زہر آلودسہی
میرا مسکن، مرے احباب کا، اجداد کا مسکن ہے یہی!
تیرگی — جس کا تصور بھی ہے دُشوار تجھے
میری اک عمریہیں گزری ہے
سوچ تو دل میں ذرا
تیری دُنیا ئے طرب
مہ و خورشید بداماں، گل وگلزار بہ کف
دہر میں جنت ِ موعود سہی
نورِ خورشید سے شرمائے گی، گھبرائے گی
میری کم زور نظر تاب کہاں لائے گی
تو اِسی حلقۂ زنجیر کو دیکھ
جس کے بے رحم نشاں
میرے بیمار وحزیں جسم میں پیوستہ ہیں
میرے اجداد کا پیمانِ وفا
کہیں پیمانِ وفا ٹوٹا ہے
نقش پائندہ ہیں زنجیر تو کٹ سکتی ہے
ذہن آزاد نہیں
تین سو سال کی دیوار بھی ہٹ سکتی ہے
میں نے پیمانِ وفا باندھ لیا
ان چھنکتی ہوئی زنجیروں سے
جن کے سائے سے بھی ہے عار مجھے
زندگی چین بھرا خواب نہ تھی
بسترِ مخمل و سنجاب نہ تھی
ساغرِ ناب نہیں، بادۂ انگور نہیں
لبِ جاں بخش نہیں، نرگسِ مخمور نہیں
میرا سرمایہ یہ زنجیریں تھیں
اپنے اجداد کی میراث سمجھ کر ہمدم
اِن چھنکتی ہوئی زنجیروں سے
میں نے پیمانِ وفا باندھ لیا
میرا یہ کلبۂ تاریک — اُداس
یہ عفونت زدہ پُر ہول فضا
زہر آلودسہی
میرا مسکن، مرے احباب کا، اجداد کا مسکن ہے یہی!
تیرگی — جس کا تصور بھی ہے دُشوار تجھے
میری اک عمریہیں گزری ہے
سوچ تو دل میں ذرا
تیری دُنیا ئے طرب
مہ و خورشید بداماں، گل وگلزار بہ کف
دہر میں جنت ِ موعود سہی
نورِ خورشید سے شرمائے گی، گھبرائے گی
میری کم زور نظر تاب کہاں لائے گی
تو اِسی حلقۂ زنجیر کو دیکھ
جس کے بے رحم نشاں
میرے بیمار وحزیں جسم میں پیوستہ ہیں
میرے اجداد کا پیمانِ وفا
کہیں پیمانِ وفا ٹوٹا ہے
نقش پائندہ ہیں زنجیر تو کٹ سکتی ہے
ذہن آزاد نہیں
تین سو سال کی دیوار بھی ہٹ سکتی ہے
پیمانِ وفا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more