یہ کانپتے ہوئے تارے، یہ ماہتابِ جواں
یہ ناز آفریں گل اور یہ نازنیں کلیاں!
ہے ایک جلوۂ رنگیں کامنتظر بستاں
بس اک نگاہ سے محشر جگا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
نہیں کہ دل پہ درِ بزمِ عیش باز نہیں
حریمِ شوق میں مطرب نہیں کہ ساز نہیں!
مرے نیاز کو خود آرزوئے ناز نہیں
جنونِ عشق پہ میں مسکرا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
مجھے فروغِ شبستاں کا گر خیال آئے
فراز چرخ سے قندیل ِ ماہ آجائے
مرے جہاں میں مگر کانپتے ہیں کچھ سائے
میں آرزوؤں کی شمعیں جلا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
میں، سائے جن سے ابد تک مفر نہیں ممکن
یہ چاہتی ہوں بھلا دوں مگر نہیں ممکن
نظام ِ جبر ہو زیر و زبر نہیں ممکن
میں اپنی بزمِ تمنا سجا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
فریبِ ساغر و مینا کا دھیان آتا ہے
سر شکِ نرگس ِ شہلا کا دھیان آتا ہے
کسی کے خونِ تمنا کا دھیان آتا ہے
میں دستِ شوق میں مہندی رچا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
خیال آتا ہے پامال زندگانی کا
اُمید و یاس کی الجھی ہوئی کہا نی کا!
غموں سے چور سسکتی ہوئی جوانی کا!
وفورِ شوق میں سجدے لٹا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
یہ آنسوؤں کا دُھندلکا سہا نہیں جاتا
سسکتا چھوڑ کے آگے بڑھا نہیں جاتا
مئے نشاط کا ساغر پیا نہیں جاتا
مئے نشاط کے ساغر لنڈھا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
نگاہِ دہر سے نظریں چرا نہیں سکتی
غمِ حیات کی تلخی مٹا نہیں سکتی
حقیقتوں کو فسانہ بنا نہیں سکتی
خیال و خواب کی بستی بسا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
پنپنے دیں گے یہ آلامِ روزگار کہاں
خزاں کی گود میں ہنگامۂ بہار کہاں
ہوائے دہر، مگر ان کو سازگار کہاں
ترانہ ہائے وفا گنگنا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
بھٹکتا دیکھ کے میں اپنی راہ لوں ہمدم!
سکوں کی چھاؤںمیں کیوں کر پناہ لوں ہمدم
کہ اتنی بھی نہیں فرصت کراہ لوں ہمدم
جوانیوں کے جواں گیت گا تو سکتی ہو ں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
یہ کانپتے ہوئے تارے، یہ ماہتابِ جواں
یہ ناز آفریں گل اور یہ نازنیں کلیاں!
ہے ایک جلوۂ رنگیں کامنتظر بستاں
بس اک نگاہ سے محشر جگا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
نہیں کہ دل پہ درِ بزمِ عیش باز نہیں
حریمِ شوق میں مطرب نہیں کہ ساز نہیں!
مرے نیاز کو خود آرزوئے ناز نہیں
جنونِ عشق پہ میں مسکرا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
مجھے فروغِ شبستاں کا گر خیال آئے
فراز چرخ سے قندیل ِ ماہ آجائے
مرے جہاں میں مگر کانپتے ہیں کچھ سائے
میں آرزوؤں کی شمعیں جلا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
میں، سائے جن سے ابد تک مفر نہیں ممکن
یہ چاہتی ہوں بھلا دوں مگر نہیں ممکن
نظام ِ جبر ہو زیر و زبر نہیں ممکن
میں اپنی بزمِ تمنا سجا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
فریبِ ساغر و مینا کا دھیان آتا ہے
سر شکِ نرگس ِ شہلا کا دھیان آتا ہے
کسی کے خونِ تمنا کا دھیان آتا ہے
میں دستِ شوق میں مہندی رچا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
خیال آتا ہے پامال زندگانی کا
اُمید و یاس کی الجھی ہوئی کہا نی کا!
غموں سے چور سسکتی ہوئی جوانی کا!
وفورِ شوق میں سجدے لٹا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
یہ آنسوؤں کا دُھندلکا سہا نہیں جاتا
سسکتا چھوڑ کے آگے بڑھا نہیں جاتا
مئے نشاط کا ساغر پیا نہیں جاتا
مئے نشاط کے ساغر لنڈھا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
نگاہِ دہر سے نظریں چرا نہیں سکتی
غمِ حیات کی تلخی مٹا نہیں سکتی
حقیقتوں کو فسانہ بنا نہیں سکتی
خیال و خواب کی بستی بسا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
پنپنے دیں گے یہ آلامِ روزگار کہاں
خزاں کی گود میں ہنگامۂ بہار کہاں
ہوائے دہر، مگر ان کو سازگار کہاں
ترانہ ہائے وفا گنگنا تو سکتی ہوں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
بھٹکتا دیکھ کے میں اپنی راہ لوں ہمدم!
سکوں کی چھاؤںمیں کیوں کر پناہ لوں ہمدم
کہ اتنی بھی نہیں فرصت کراہ لوں ہمدم
جوانیوں کے جواں گیت گا تو سکتی ہو ں
میں اپنی دُنیا کو جنت بنا تو سکتی ہوں
لرزاں سائے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more